i پاکستان

سپریم کورٹ، ذوالفقار علی بھٹو پھانسی کیس سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعتتازترین

February 27, 2024

سپریم کورٹ آف پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو پھانسی کیس سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران عدالتی معاون جسٹس ریٹائرڈ منظور ملک نے دلائل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ذوالفقارعلی بھٹو مقدمے میں ملزم نامزد نہیں تھے، کیس کا ریکارڈ 8اگست 1977 کو دوبارہ تفتیش کے لیے لیا گیا، دوبارہ تحقیقات کے لیے مجسٹریٹ سے کوئی تحریری اجازت نہیں لی گئی، دستاویزات کے مطابق کیس کا ریکارڈ بعد میں لیا گیا،نجی ٹی وی کے مطابق چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں 9رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے۔چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری سپریم کورٹ میں موجود ہیں۔عدالتی معاون جسٹس ریٹائرڈ منظور ملک نے دلائل کا آغاز کیا تو چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی نے ان سے کہا کہ آپ کو کرمنل پہلو پر سننا چاہتے ہیں۔عدالتی معاون جسٹس ریٹائرڈ منظور ملک نے کہا کہ پہلے ایک آئینی پہلو آرٹیکل 186کی تشریح کا ہے، گزارش ہے کہ مجھے ایسے سنا جائے جیسے آپ 1978 میں اپیل سن رہے ہیں، مجھے سننے کے بعد فیصلہ آپ کو ہی کرنا ہے، آپ شاید کہہ دیں کہ سارا ٹرائل قانونی تھا کچھ غلط نہیں تھا، ہو سکتا ہے کہ آپ اس کے برعکس رائے قائم کریں۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی نے کہا کہ آپ کو ایسے میجر پوائنٹس پر سننا چاہیں گے جو ضمیر جھنجھوڑ دینے والے ہوں۔عدالتی معاون جسٹس ریٹائرڈ منظور ملک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میں نے اس کیس کی سمری تیار کی ہے، یہ واقعہ 11اور 12نومبر 1974 کی درمیانی شب پیش آیا، یہ وقوعہ لاہور میں شادمان چوک میں پیش آیا تھا، تھانہ اچھرہ لاہور میں درج مقدمے پر تفتیش یہ کہہ کر بند کی گئی کہ ملزمان کا سراغ نہیں لگایا جا سکا

ذوالفقارعلی بھٹو مقدمے میں ملزم نامزد نہیں تھے، کیس کا ریکارڈ 8اگست 1977 کو دوبارہ تفتیش کے لیے لیا گیا، دوبارہ تحقیقات کے لیے مجسٹریٹ سے کوئی تحریری اجازت نہیں لی گئی، دستاویزات کے مطابق کیس کا ریکارڈ بعد میں لیا گیا، تفتیش پہلے ہی دوبارہ شروع ہو چکی تھی، 6فروری 1979 کو سپریم کورٹ کے 7رکنی بینچ نے بھٹو کی سزا کے خلاف اپیل پرسماعت کی، سپریم کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو اور شریک ملزم کی سزا برقرار رکھی تھی، احمد رضا قصوری کی درخواست پر ہی مقدمہ درج کیا گیا تھا، قتل کی پہلی تفتیش بند اور دوبارہ شروع کیسے ہوئی یہ اہم ہے، پہلے تفتیش بند کرتے ہوئے کہا گیا کہ ملزمان کا کچھ پتہ نہیں چلا، پولیس نے مجسٹریٹ سے کیس داخل دفتر کرنے کی استدعا کی تھی، مجسٹریٹ نے پولیس کی کیس بند کرنے کی استدعا منظور کی، مجسٹریٹ نے کیس بند کرنے کا باقاعدہ آرڈر جاری کیا، مجسٹریٹ کے اس آرڈر کو کہیں چیلنج نہیں کیا گیا، مجسٹریٹ کا آرڈر آج تک برقرار ہے مگر ایف آئی اے نے الگ تفتیش کی،چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی نے سوال کیا کہ سپریم کورٹ نے اس معاملے پر کچھ نہیں کہا؟عدالتی معاون جسٹس ریٹائرڈ منظور ملک نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ نے صرف لکھا، ایف آئی اے نے الگ تفتیش کی، یہ صرف تعصب نہیں، بد دیانتی تھی۔

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی