سابق وکٹ کیپر بیٹر راشد لطیف نے پاکستان میں وکٹ کیپرز کے مستقبل کے حوالے سے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کرکٹ کا المیہ ہے کہ وکٹ کیپرز کی جگہ اب سٹاپر آنا شروع ہو گئے ہیں جو بیک وقت اچھی وکٹ کیپنگ نہیں کر پا رہے ہیں ۔انہوں نے سماجی رابطے کی سائٹ ایکس پر کہا کہ سرفراز اور رضوان کے بعد جتنے بھی وکٹ کیپرز آزمائے گئے یا آزمائے جا رہے ہیں وہ سب بیٹسمین ہیں اور ان کے ہاتھوں میں دستانے پہنا دیئے جاتے ہیں ۔ راشد لطیف نے کہا کہ وکٹ کیپنگ کرنے کی وجہ سے ان کا کوئی مستقل بیٹنگ کا نمبر نہیں ہوتا وہ ڈومیسٹک میں اوپن یا ون ڈاون بیٹنگ کرتے ہیں لیکن پاکستان ٹیم میں ان کا نمبر نیچے ہوتا ہے ۔اب وہ پہلی اننگز میں وکٹ کیپنگ کر چکے ہوتے ہیں تو ان کو بہت انٹظار کرنا پڑتا ہے اپنے سات نمبر پر بیٹنگ کرنے کا ۔انہوں نے کہا کہ محمد حارث اوپنر یا ون ڈائون تھا اور ایک اچھا ہٹر سمجھا جاتا تھا جس کی وجہ سے رضوان ، عثمان اور حسیب کو باہر رکھا گیا اور انہیں کہا گیا کہ ماڈرن ڈے کرکٹ کھیلنی ہے تو حارث نے اس پر عمل کیا لیکن ان کا نمبر بہت نیچے کر دیا جس کی وجہ سے وہ صرف چلانے والا بلے باز بن گیا ۔ اب کوچ بول رہا ہے کہ اس کا ایوریج 17 کا ہے ۔
راشد لطیف نے کہا کہ میں یہ سوال کرتا ہوں آپ نے اس کو ایوریج پر سلیکٹ کیا تھا یا اسٹرائیک ریٹ پر ؟ اور اب اس پر سے ہاتھ ہٹا لیا اور عثمان کو واپس لے کر آ گئے صاحبزادہ فرحان کے ساتھ وکٹ کیپر کی حیثیت سے ۔صاحبزادہ نے 136 میچز میں سے صرف سات میچز میں وکٹ کیپنگ کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بسم اللہ خان کافی عرصہ سے کارکردگی کرتا ہوا آیا لیکن ان کو کبھی قومی ٹیم کے دھارے میں نہیں لایا گیا اور بورڈ کو چاہیے بلوچستان ، سندھ اور ساوتھ پنجاب اور کے پی کے ملاکنڈ ڈویژن کے کھلاڑیوں پر بھی اپنی نظر کرم کریں تو پاکستان کی ٹیم ایک یا دو علاقوں کی ٹیم نہیں لگے پورے پاکستان کی ٹیم لگے گی۔سفیان مقیم کشمیر سے ہے کبھی اس کو ٹیم میں لیتے ہیں اور کبھی باہر کر دیتے ہیں اس کو بھرپور موقع دینا چاہیے۔ راشد لطیف نے کہا کہ خواجہ نافع بھی بنیادی طور پر بلے باز ہے جس کو کیپنگ گلوز پہنا دیئے گئے ہیں اور ایمرجنگ میچز میں وکٹ کیپنگ بھی کی تھی ۔ حسیب کو ڈراپ کیوں کیا تھا اور واپس کیوں آیا ہے؟۔سابق وکٹ کیپر نے کہا کہ سعد بیگ اچھا وکٹ کیپر ہے جس کے گلوز اتروا دیئے گئے تھے وہ بھی زیادتی ہے ۔ غازی غوری پر وکٹ کیپنگ اور بیٹنگ پر کام کیا جائے تو وہ بھی ایک اچھا بیٹسمین وکٹ کیپر بن سکتا ہے لیکن اس پر مسلسل نگرانی کی سخت ضرورت ہے ورنہ پاکستان ٹیم سے وکٹ کیپنگ کا خانہ ختم کر کے اسٹاپر لکھنا پڑے گا۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی