i بین اقوامی

نیا دفاعی معاہدہ، پاکستان اور سعودی عرب نے عسکری تعاون کو باضابطہ شکل دیدی گئیتازترین

September 19, 2025

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ایک اہم اسٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدہ طے پا گیا ہے، جس کے تحت دونوں ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ کسی ایک پر ہونے والی جارحیت کو دونوں کے خلاف حملہ تصور کیا جائے گا۔ یہ معاہدہ ریاض میں وزیر اعظم شہباز شریف اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے درمیان دستخط ہوا، اس موقع پر پاکستان کے آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر بھی موجود تھے۔ ایک سعودی اہلکار نے خبر رساں ایجنسی رائٹرز کو بتایا کہ یہ معاہدہ کئی سالوں پر محیط مذاکرات کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا یہ کسی مخصوص ملک یا واقعے کے ردعمل میں نہیں ہے بلکہ دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ اور گہرے تعاون کو ادارہ جاتی شکل دینا ہے۔ ریاض اور اسلام آباد کے درمیان تاریخی تعلقات طویل اور مضبوط رہے ہیں۔ 1967 سے اب تک پاکستان 8,200 سے زائد سعودی فوجی اہلکاروں کو تربیت دے چکا ہے، جو کہ دو طرفہ عسکری تعاون کی ایک پائیدار بنیاد ہے۔ یہ معاہدہ دہائیوں پر محیط مشترکہ مشقوں، اسلحہ تعاون اور غیر رسمی دفاعی ہم آہنگی پر مبنی ہے، لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ اس تعاون کو ایک باضابطہ باہمی دفاعی معاہدے کی شکل دی گئی ہے۔

اس معاہدے کا سب سے حساس پہلو جوہری ابہام ہے۔ جب یہ سوال کیا گیا کہ کیا پاکستان کی جوہری صلاحیت اس معاہدے کا حصہ ہے، تو سعودی اہلکار نے کہا کہ یہ ایک "جامع دفاعی معاہدہ ہے جو تمام عسکری ذرائع کا احاطہ کرتا ہے۔ تاہم، معاہدے کے متن میں جوہری تحفظ کا واضح ذکر موجود نہیں ہے۔ اس میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ آیا پاکستان اپنی جوہری صلاحیت سعودی دفاع کے لیے استعمال کرے گا، کن حالات میں، اور کس حد تک نگرانی و کنٹرول حاصل ہوگا۔ یہ معاملہ وضاحت طلب ہے، جو مستقبل میں سفارتی پیچیدگیوں کا سبب بن سکتا ہے۔ علاقائی توازن کا پیغام بھی واضح ہے۔ جہاں پاکستان کو نئی اہمیت اور وقار حاصل ہوا ہے، وہیں سعودی عرب یہ اشارہ دے رہا ہے کہ اس کا دفاعی انحصار کسی ایک اتحادی پر مرکوز نہیں ہے۔ اسی سعودی اہلکار نے کہا ہمارے بھارت کے ساتھ تعلقات پہلے سے زیادہ مضبوط ہیں۔ ہم ان تعلقات کو مزید فروغ دیں گے اور علاقائی امن کے لیے ہر ممکن کردار ادا کریں گے۔ دوحہ میں اسرائیلی حملے جیسے حالیہ واقعات کے بعد، امریکا کی سکیورٹی یقین دہا

نیوں پر خلیجی ریاستوں میں بڑھتی ہوئی بے یقینی کے تناظر میں یہ معاہدہ سعودی عرب کی متبادل دفاعی شراکت داریوں کی کوششوں کی عکاسی کرتا ہے۔ تاہم کئی اہم تفصیلات تاحال غیر واضح ہیں۔ بجٹ کی تفصیلات، کمانڈ و کنٹرول کا نظام، یا "جارحیت" کے قانونی محرکات کے بارے میں کوئی معلومات منظر عام پر نہیں آئی ہیں۔ یہ بھی واضح نہیں کہ مشترکہ دفاع کس طرح عملی شکل اختیار کرے گا: کیا پاکستان کے فوجی دستے سعودی عرب میں تعینات ہوں گے؟ تعیناتی کیسے منظم ہو گی؟ لاجسٹک اور فورس کی تیاری کی صورت کیا ہو گی؟ اگر ان نکات کو واضح نہ کیا گیا تو خطرہ ہے کہ یہ معاہدہ محض ایک سفارتی بیان بن کر رہ جائے، بجائے اس کے کہ یہ ایک قابلِ عمل دفاعی معاہدہ ثابت ہو۔ آنے والے وقت میں اصل اہمیت اس بات کی ہوگی کہ الفاظ کو عمل میں کیسے بدلا جاتا ہے۔ مبصرین دیکھیں گے کہ آیا پاکستان اور سعودی عرب مشترکہ منصوبہ بندی سیل قائم کرتے ہیں، مشترکہ فوجی مشقیں کرتے ہیں، قانونی طریقہ کار اور قواعد طے کرتے ہیں، اور جوہری پہلوؤں پر وضاحت لاتے ہیں یا نہیں۔ اگر یہ اقدامات آگے بڑھے تو یہ معاہدہ خطے کے سکیورٹی ڈھانچے میں بڑی تبدیلی لا سکتا ہے۔ بصورت دیگر، یہ صرف ایک علامتی روک تھام کی حیثیت رکھے گا، بغیر کسی عملی اسٹریٹجک تبدیلی کے۔

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی