آسٹریلیا کی ایک نئی اسٹارٹ اپ کمپنی کورٹیکل لیبز نے دنیا کا پہلا زندہ دماغی خلیوں پر مبنی کمپیوٹر بنایا ہے۔ اس سسٹم کا نام CL1 ہے، یہ کمپیوٹر عام کمپیوٹرز کی طرح نہیں بلکہ یہ انسانی دماغی خلیوں یعنی نیورونز سے کام لیتا ہے، جو سائنسدانوں نے انسان کی جلد یا خون سے تیار کیے ہیں۔ یہ جدید ٹیکنالوجی خاص طور پر نیوروسائنس اور بایو ٹیکنالوجی کے محققین کے لیے ایک انقلابی پلیٹ فارم ثابت ہو رہی ہے۔سی ایل ون میں تقریبا 8 لاکھ انسانی نیورونز شامل کیے گئے ہیں، یہ نیورونز ایک چِپ پر رکھے جاتے ہیں اور ایک مخصوص نظام کے ذریعے انہیں ضروری غذائی اجزا، درجہ حرارت کا توازن، فضلہ کی صفائی، اور مائع کی مقدار کو کنٹرول کرتے ہوئے محفوظ رکھا جاتا ہے۔ یہ خلیے بجلی کے چھوٹے سگنلز کے ذریعے آپس میں بات چیت کرتے ہیں اور اردگرد کے ماحول کے مطابق خود کو بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔روایتی کمپیوٹروں کے برعکس، CL1 معلومات کو بجلی کے نہایت تیز رفتار ردعمل سے پروسیس کرتا ہے۔ جب کوئی سگنل یا ڈیٹا نیورونز کو دیا جاتا ہے، تو وہ فوری ردعمل دیتے ہیں۔ یہ ردعمل ایک خاص ہارڈویئر اور سافٹ ویئر کے ذریعے سمجھا جاتا ہے، اور یوں یہ سسٹم ریئل ٹائم میں کام کرتا ہے اور سیکھنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔
کورٹیکل لیب کے چیف سائنسی آفیسر بریٹ کیگن کے مطابق، یہ سسٹم دماغ کے قدرتی طریقہ کار کو نقل کرتا ہے۔ محققین اس کی مدد سے مختلف دواں کے اثرات، جینیاتی فرق، یا دماغی چوٹ جیسے عوامل کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ یعنی یہ ٹیکنالوجی صرف کمپیوٹنگ کے لیے نہیں بلکہ انسانی دماغ کی سمجھ بوجھ کے لیے ایک زبردست ذریعہ بن رہی ہے۔مشہور نیورو سائنٹسٹ کارل فرسٹن نے اسے فلسفے میں موجود ایک پرانے تصور Brain in a Vat یعنی مرتب دماغ کی عملی شکل قرار دیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اب سائنسدان ایک بند نظام میں انسانی دماغی خلیوں کے ردعمل کو مختلف تجربات کے ذریعے جانچ سکتے ہیں۔سی سیل ون یونٹ کی قیمت 35 ہزار ڈالرز رکھی گئی ہے، جبکہ بڑی مقدار میں خریدنے پر یہ 20 ہزار ڈالر فی یونٹ ہو جاتی ہے۔ کمپنی ایک آن لائن کلاڈ سروس بھی فراہم کر رہی ہے جس کے ذریعے سائنسدان گھر بیٹھے تجربات کر سکتے ہیں۔ اس کلاڈ سروس کی قیمت 300 ڈالر فی ہفتہ ہے۔ ایک یونٹ چھ مہینے تک فعال رہ سکتا ہے۔اگرچہ CL1 روایتی مصنوعی ذہانت یا اے آئی کو بدلنے کے لیے نہیں بنایا گیا، لیکن یہ انسانوں کے سیکھنے، سمجھنے اور ردعمل دینے کے عمل کو سمجھنے کا ایک انوکھا طریقہ ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس کی اصل اہمیت کمپیوٹر سائنس سے زیادہ بایولوجیکل سائنس میں سامنے آئے گی۔ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی کمپیوٹر سائنس سے زیادہ طب، دماغی تحقیق، اور نیوروسائنس کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگی۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی