سپریم کور ٹ نے 9 مئی کے واقعات سے متعلق مقدمات میں پی ٹی آئی کے سینئر رہنما اور سینیٹر اعجاز چوہدری کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست منظور کر لی۔ عدالت نے ان کی رہائی کا حکم دیتے ہوئے ایک لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض ضمانت دی۔ سپریم کورٹ میں اعجاز چوہدری کی ضمانت کی درخواست پر سماعت ہوئی جس میں ان کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ اعجاز چوہدری کو سیاسی بنیادوں پر گرفتار کیا گیا اور ان کے خلاف درج مقدمات میں شواہد ناکافی ہیں، اعجاز چوہدری نے کسی بھی قسم کی توڑ پھوڑ یا تشدد میں حصہ نہیں لیا اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت پیش کیا جا سکا۔دوران سماعت، اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ سینیٹر اعجاز چوہدری نے لوگوں کو اکسایا اور سازش کا بھی حصہ رہے۔جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دئیے کہ اعجاز چوہدری کے خلاف کیس اتنا ہی مضبوط تھا تو فوجی عدالت میں لے جاتے، ضمانت کو بطور سزا استعمال نہیں کیا جا سکتا۔وکیل پی ٹی آئی سینیٹر نے کہا کہ اعجاز چوہدری 11 مئی 2023 سے گرفتار ہیں۔عدالت نے دلائل سننے کے بعد ریمارکس دئیے کہ ابتدائی شواہد کی روشنی میں ملزم کو مزید حراست میں رکھنا مناسب نہیں۔
عدالت نے قرار دیا کہ اگر ملزم کو ضمانت نہ دی گئی تو یہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو گی۔ عدالت نے سینیٹر اعجاز چوہدری کی ایک لاکھ روپے مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کر لی۔دوسری جانب، 9 مئی مقدمے میں پی ٹی آئی رہنما حافظ فرحت عباس کی ضمانت قبل از گرفتاری بھی منظور کر لی گئی۔وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ شریک ملزم امتیاز شیخ کی ضمانت قبل از گرفتاری بھی سپریم کورٹ سے منظور ہوئی۔ اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ حافظ فرحت عباس پر نو مئی کی سازش کا بھی الزام ہے، جس پر جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ سازش کا الزام تو امتیاز شیخ پر بھی تھا۔اسپیشل پراسیکیوٹر نے دلائل میں کہا کہ حافظ فرحت عباس کو ٹرائل کورٹ مفرور قرار دے چکی ہے۔جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ مفرور ہے یا نہیں یہ معاملہ متعلقہ عدالت دیکھ لے گی، تفتیش مکمل ہوچکی چالان بھی جمع ہوچکا اب گرفتاری کیا کرنی ہے؟اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہم چار ماہ میں ٹرائل مکمل کروا دیں گے۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دئیے کہ اللہ کرے آپ چار ماہ میں ٹرائل مکمل کروا دیں، بس کر دیں اب کتنا گھسیٹنا ہے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی