امریکی کانگریس کی ایک کمیٹی کے سربراہ کرسٹوفر ایچ اسمتھ نے ٹرمپ انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان میں مبینہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نظر رکھے، کیونکہ گواہوں نے ملک بھر میں بڑے پیمانے پر زیادتیوں کی نشاندہی کی ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق امریکی کانگریس کی کمیٹی میں پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پر سماعت ہوئی، اس موقع پر ریپبلکن رکنِ کانگریس اور ٹام لینٹوس ہیومن رائٹس کمیشن کے شریک چیئرمین کرسٹوفر ایچ اسمتھ نے کہا کہ یہ غیرمعمولی حد تک معمولی صورتحال ہے۔صرف کانگریس ہی نہیں بلکہ انتظامیہ کو بھی ہوشیار ہو کر نوٹس لینا چاہیے۔کرسٹوفر ایچ اسمتھ نے یہ بھی زور دیا کہ امریکا اس وقت خاموش نہیں رہ سکتا جب سویلین حکمرانی پر عسکری اثر و رسوخ غالب آ رہا ہو۔نہوں نے یہ تبصرہ اس وقت کیا جب بانی پی ٹی آئی عمران خان کے سابق معاون زلفی بخاری نے پینل کے سامنے دعوی کیا کہ سابق وزیرِ اعظم اور ان کی اہلیہ کو تقریبا 200 مقدمات میں غلط طور پر ملوث کیا گیا جو تمام کے تمام سیاسی بنیادوں پر قائم کیے گئے۔زلفی بخاری نے اپنے بیان میں کہا کہ پاکستانی شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق محدود کر دئیے گئے ہیں، میڈیا کو خاموش کرا دیا گیا ہے اور جو لوگ بولنے کی جرات کرتے ہیں انہیں ملازمت سے نکال دیا جاتا ہے یا ملک چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ کو بھی آزادانہ اور منصفانہ فیصلے کرنے سے روکا جا رہا ہے، اور اس کے لیے دبا اور پارلیمانی ترامیم کا سہارا لیا جا رہا ہے۔
افغانستان امپیکٹ نیٹ ورک کے بانی صادق امینی نے پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں دوغلے پن کی طرف توجہ دلائی۔انہوں نے یہ دعوی بھی کیا کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو گمراہ کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ عمران خان طالبان کا امن کا پیغام واشنگٹن لے کر گئے جو دراصل ایک چالاک فریب تھا، جسے ان کے روسی ہم منصبوں نے تیار کیا تھا۔صادق امینی نے کہا کہ انہوں نے صدر ٹرمپ کو قائل کیا کہ وہ ان دہشت گردوں کے ساتھ امن معاہدہ کریں، جس کا نتیجہ صرف طالبان کو مزید طاقت دینے کی صورت میں نکلا۔ انہوں نے کہا کہ اس امن عمل کی ناکامی ناگزیر تھی، جس کے بعد امریکا کا انخلا ہوا اور کابل میں ایک جنس پر مبنی امتیازی نظام قائم ہوا۔صادق امینی نے یہ بھی کہا کہ عمران خان نے بطور وزیرِ اعظم طالبان کے لیے ترجمان کا کردار ادا کیا اور دنیا بھر میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ ایک مقامی گروہ ہیں جو افغان عوام کے مفاد میں کام کر رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی رہنما، خواہ وہ فوجی ہوں یا سویلین، طالبان کے خطرے کی شکایت کرتے ہیں، مگر آج بھی ان کا موقف ہے کہ طالبان افغانستان کے لیے اچھے ہیں لیکن پاکستان کے لیے برے، انہوں نے اسے دوغلا پن قرار دیا۔کمیٹی کے سامنے جن دیگر افراد کی گواہی مقرر تھی ان میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے یورپ و وسطی ایشیا کے لیے ایڈووکیسی ڈائریکٹر بین لنڈن اور پرسیئس اسٹریٹیجیز کے منیجنگ ڈائریکٹر جیرڈ گینسر شامل تھے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی