پاکستان میں 10 سال سے کم عمر 75 فیصد بچے تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ عالمی بینک کی اکتوبر 2024 میں جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں لگ بھگ دو کروڑ بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔ المیہ یہ بھی ہے کہ بچوں کو جس عمر میں اسکول جانا چاہیے وہ اس عمر میں اسکول نہیں جاتے اور اسکولوں میں ان کے داخلے تاخیر سے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں کام کرنے والے بھٹہ مزدوروں کے بچوں کی کہانی بھی اسی سے ملتی جلتی ہے اسلام اباد کے نواحی علاقے ترنول کے بھٹے سے منسلک کالونی میں دیکھا گیا ہے کہ 120 سے زائد بچوں میں سے صرف دو بچے ہی خواندہ ہیں۔ یہ دونوں بچے بھٹہ مزدور فیاض کے بیٹے ہیں اور انہوں نے میٹرک کیا ہے۔ فیاض کے دونوں بیٹے رات تین بجے بھٹے پہ کام کرنے جاتے اور صبح آٹھ بجے تک بھٹے پر کام کرکے اسکول روانہ ہوتے۔ پھر دو بجے اسکول سے واپس آکر دوبارہ اینٹیں بنانے میں فیاض اور اس کی بیگم کا ہاتھ بٹاتے۔ بھٹہ مزدوری اور تعلیمی سفر میں فیاض کے دونوں بچوں کا بچپن کہیں کھو گیا ہے، ان کے چہروں سے نکھار نہیں ماند پڑا ہے۔ ڈبل زمہ داریوں سے ان کے چہرے کے تاثرات عمر سے بڑے لگتے ہیں۔ بھٹہ مزدوروں کی کالونی میں اچھلتے کودتے اور مستقبل کے خوبصورت خوابوڈ سے نا آشنا یہ بچے کتابوں کی جگہ ہاتھ میں مٹی تھامے اینٹیں بنانے میں اپنے والدین کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ بھٹہ مزدوروں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو گھر پر اکیلا نہیں چھوڑ سکتے کیونکہ اینٹیں بنانے کے لیے پورے خاندان کو کام پر آنا پڑتا ہے اس لیے بچے بھی ان کے ساتھ اینٹیں بنانے میں ہاتھ ہٹانے کے لیے بھٹے پر کام کرتے ہیں۔
ان بھٹہ مزدوروں کے بچوں کی تعلیمی ضروریات مسجد سے منسلک مدرسے میں قران کی تعلیمات تک محدود ہیں۔ اس حوالے سے ایجوکیشن سیکرٹری پاکستان ورکرزفیڈریشن اسد محمود کا کہنا ہے بھٹہ پر کام کرنے والے مزدوروں کی تعلیم کے ان مواقع فراہم کیے جائیں گے۔ ان کا کہنا تھاکہ صرف اسلام آباد میں سات سوسے زائد بھٹے ہیں جن میں سے رجسٹرڈ بھٹوں کی تعدادصرف 80ہے باقی سب غیررجسٹرڈ ہیں جنکی رجیسٹریشن کیلئے ہماری ڈی سی اسلام آباد سے بات چیت ہوئی ہے،ہماری کوشش ہے کہ سب کو رجسٹرڈ کرائیں ۔ ان میں کام کرنے والے مزدوربھی یررجسٹرڈ ہیں ہربھٹے پر تیس سے چالیس مردوخواتین کام کررہے ہیں جن میں خواتین کی تعدادبیس سے پچیس ہے۔ جوں ہی ان بھٹہ مزدروں کی رجسٹریشن مکمل ہوگی ان کے بچوں کی تعلیمی سہولیات کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ اسد محمود نے کہا کہ اگرضلعی انتظامیہ چاہے تو سب کچھ ممکن ہے،مگر افسوس یہاں قوانین تو ہیں مگران پر عملدرآمد نہیں ہے۔ پچیس سال سے اقوام متحدہ سمیت سائوتھ ایشیا اورافریقہ میں انسانی حقوق پر اپنی خدمات سرانجام دینے والے لیبرایکسپرٹ ڈاکٹر سیف اللہ چوہدری کا کہنا ہے کہ بھٹہ مزدوروں کو تعلیمی سہولیات دینا اقوام متحدہ کے ایس ڈی جیز چار کا ہدف ہے۔ ایس ڈی جیز نمبر 4 پاکستان کی وفاق سمیت تمام صوبائی حکومتوں کو پابند کرتا ہے کہ بچوں کو بنیادی معیاری تعلیم مفت فراہم کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کی تعلیم بھی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ کہ آج کی بچی کل کی ماں ہے۔ اگر آج لڑکیوں کو تعلیم یافتہ بنادیا تو وہ آیندہ نسلوں کو تعلیم یافتہ بنانے میں اہم کردار ادا کریں گی۔
ڈاکٹر سیف اللہ نے یقین دلایا کہ معاشرے کے تمام شعبہ جات سے تعاون سے مزدوربچیوں کو کم ازکم پانچویں تک تعلیم دلوائی جائے گی اور اس اس سلسلے میں بھرپور کوششیں کی جائیں گی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے بھٹے شہروں سے اور آبادیوں سے دور بنائے جاتے ہیں اس لیے بھٹا مزدوروں کے بچوں کے لیے اسکول قریب نہیں ہوتے یہی وہ وجہ ہے کہ بھٹہ مزدوروں کے بچے تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بھٹہ مزدوروں کے بچوں کے ساتھ ساتھ ان کی لڑکیوں کی تعلیم بھی بہت اہمیت کی حامل ہے اگر بھٹہ مزدوروں کی لڑکیاں بھی خواندہ ہو گئیں تو وہ اپنی آیندہ نسلوں کو بھی گھر میں ہی بنیادی تعلیم دینے کا ذریعہ بنے گی۔ پاکستان کے معروف تحقیقاتی ادارے ایس ڈی پی آئی نے اس سلسلے میں اقوام متحدہ کے ایس ڈی جیز اور آئی ایل او کے کنونشنز پر عمل درآمد کے لیے ایک فریم ورک تیار کیا ہے۔ یہ فریم ورک اقوام متحدہ کے ایس ڈی جیز اور آئی ایل او کے لیبر قوانین پر عمل درآمد کو آسان بناتا ہے۔ پاکستان اقوام متحدہ کے ایس ڈی جیز اہداف پر ایک فریم ورک عمل درآمد کرنے کا پابند ہے۔ یہ ایس ڈی جیز اہداف اور اس کا فریم ورک پاکستان میں بسنے والے تمام شہریوں کے بنیادی حقوق کی فراہمی سے متعلق ہیں۔ ان ایس ڈی جیز کے اہداف میں باقاعدہ ایک فریم ورک پر عمل درآمد کرنا ہوتا ہے، جس میں ایس ڈی جی 8، ایس ڈی جی 12 اور ایس ڈی جی 13 وہ اہداف ہیں جن میں مزدوروں کے لیے کام کرنے کا ماحول بہتر ہونا ضروری ہے۔
یعنی انہیں پینے کا صاف پانی ملے،
واش رومز کی سہولت ہو،
ماحولیات آلودگی نہ ہو،
انہیں صحت اور ان کے بچوں کے لیے تعلیم کی سہولت ہو۔
مزدوروں کے لیے اس فریم ورک میں لیبر قوانین پر عمل درآمد، ان کی رجسٹریشن، ان کے لیے ای او بی آئی میں رجسٹریشن وغیرہ شامل ہیں۔ ایس ڈی پی آئی )نے اقوام متحدہ کے ایس ڈی جیز اور ا انٹر نینشل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے کنونشنز پر عمل درآمد کے لیے ‘Socially and Environmentally Compliant Brick Kiln Framework’ (SECBKF)
کے نام سے سماجی اور ماحولیات کے مطابق بھٹہ مزدورں کے لیے فریم ورک متعارف کرایا ہے ۔جس میں بھٹہ مالکان اور مزدورں کے درمیان ڈائیلاگ او رمل بیٹھ کر لائحہ عمل طے کرنے کی فضا پیدا کی جائے گی ۔فریم ورک کے تحت بھٹہ مزدوروں کے مسائل سے نمٹنے کے لیے دو طرفہ اسڑیجی طے کی جائے گی تاکہ بھٹہ مزدوروں پر بھی لیبر لاز کا ا طلاق کرتے ہوئے پاکستان مقامی اور بین الاقوامی سطح پر کیے گیے معاہدوں اور وعدوں پر عمل درٓمد کراسکے ۔ ماہرین کے مطابق اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف ایس ڈی جیز کے حصول کے لیے پاکستان کے پاس وقت کم اور مقابلہ سخت ہے، اس سلسلے میں معاشرے کے تمام طبقات کو مل کر اور متحدہ کوششوں سے ان بچوں کی تعلیمی محرومیاں ختم کرنا ہوں گی۔(محمد اسد)
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی