نادرا کے ترجمان سید شباہت علی نے واضح کیا ہے کہ اتھارٹی کسی بھی فرد یا ادارے کو یہ اجازت نہیں دیتی کہ وہ کسی دوسرے شہری کی ذاتی معلومات حاصل کرے، نادرا نے ماضی میں بھی کسی کو یہ اختیار نہیں دیا۔ایک انٹرویو میں نادرا ترجمان نے بتایا کہ نادرا آرڈیننس کی دفعات 28 اور 29 کے مطابق کوئی بھی شخص جو بغیر اجازت قومی رجسٹری کی معلومات کو افشا کرے، تشہیر کرے یا ان کا غلط استعمال کرے، وہ قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو گا۔ ایسے افراد کو جرمانہ یا قید کی سزا ہو سکتی ہے۔اسی طرح دفعہ 7 کے تحت صرف ان شعبوں کو مخصوص قواعد و ضوابط کے تحت کم سے کم درکار معلومات فراہم کی جا سکتی ہیں جیسے کہ بینکنگ یا ٹیلی مواصلات کے مجاز ادارے۔سید شباہت علی نے نشاندہی کی کہ سوشل میڈیا پر بعض افراد ایسے غیرقانونی دعوے کرتے ہیں کہ وہ نادرا کی معلومات فراہم کر سکتے ہیں مگر ان دعووں کی کوئی حقیقت یا ضمانت نہیں۔انہوں نے کہا کہ حتی کہ نادرا کے کسی افسر کو بھی یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ شہری کی ذاتی معلومات تک رسائی حاصل کرے یا وہ کسی تیسرے فریق کے ساتھ یہ معلومات شیئر کرے۔نادرا کے ترجمان کے مطابق حالیہ عرصے میں نادرا نے ایسے 70 سے زائد فیس بک پیجز اور سوشل میڈیا آئی ڈیز کی نشاندہی کی ہے جو غیرقانونی طور پر یہ خدمات فراہم کرنے کے دعوے کر رہے تھے۔ان میں سے زیادہ تر معلومات شناختی دستاویزات کی فوٹو کاپیوں یا بعض اداروں کے اندرونی افراد کی ملی بھگت سے حاصل کی جا رہی تھیں۔ ان کی تفصیلات ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کو ارسال کی جا چکی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ نادرا اپنے میڈیا وِنگ اور نشریاتی ذرائع کے ذریعے بھی شہریوں کو مسلسل خبردار کر رہا ہے کہ وہ اپنی ذاتی معلومات کسی کے ساتھ بھی شیئر نہ کریں۔نادرا کے ترجمان نے بتایا کہ شناختی دستاویزات کی فوٹو کاپیوں یا بعض اداروں کے اندرونی افراد کی ملی بھگت سے زیادہ تر معلومات حاصل کی جا رہی تھیں ۔ترجمان شباہت علی نے بتایا کہ نادرا آرڈیننس 2000 میں ڈیٹا سکیورٹی اور رازداری کے تحفظ کے لیے کئی اہم دفعات شامل کی گئی ہیں جن کا مقصد شہریوں کی معلومات کو غیرمجاز رسائی، افشا اور غلط استعمال سے بچانا ہے۔اس قانون کے تحت نادرا پر لازم ہے کہ وہ اپنے تیار کردہ یا زیرِانتظام تمام ڈیٹا بیس، نیٹ ورکنگ انفراسٹرکچر اور دیگر سسٹمز میں موجود معلومات کی سکیورٹی اور رازداری کو ہر حال میں یقینی بنائے۔ خاص طور پر نیشنل ڈیٹا ویئر ہاس کی حفاظت کے لیے انفرادی و اجتماعی سطح پر مثر حفاظتی اقدامات اختیار کرنا نادرا کی ذمہ داری ہے۔ترجمان کا کہنا تھا کہ آرڈیننس میں واضح طور پر پابندی عائد کی گئی ہے کہ کوئی بھی شخص حتی کہ نادرا کا اپنا ملازم بھی، دورانِ ملازمت حاصل کردہ معلومات کو اپنی سرکاری ذمہ داریوں کے علاوہ افشا یا عام نہیں کر سکتا۔ اس خلاف ورزی پر پانچ سال قید،10 لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔مزید یہ کہ اگر کوئی شخص نادرا کے ڈیٹا بیس یا متعلقہ نظاموں میں سکیورٹی کے مقررہ ضوابط کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو تو اسے 14 سال تک قید بامشقت اور کم از کم 10 لاکھ روپے جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔ یہ تمام دفعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ نادرا شہریوں کے حساس ڈیٹا کے تحفظ کو اولین ترجیح دیتا ہے اور اس سلسلے میں کسی بھی کوتاہی کو قابلِ قبول نہیں سمجھا جاتا۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی