i پاکستان

پاکستان کا موقف سچ پر مبنی اور تگڑا ہے، امریکہ کو معلوم ہے ہم دہشتگرد گروہوں سے کیسے ڈیل کرتے ہیں،بلاول بھٹوتازترین

June 12, 2025

چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستانی سفارتی وفد کے سربراہ بلاول بھٹو نے کہا ہیکہ پاکستان کا موقف سچ پر مبنی اور بہت تگڑا ہے، پہلگام واقعے کے بارے میں امریکہ میں موجود بھارت کے حامیوں نے بھی تسلیم کیا کہ بھارت نے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیے، دہشتگردی کے خلاف پاکستان کے اقدامات کو امریکہ میں مانا جاتا ہے، بھارت نے پاکستان کا پانی بندکرنے کی کوشش کی تو جنگی اقدام تصور ہوگا، جنگ بندی تعاون میں کردار ادا کرنے پر امریکی قیادت کا شکریہ ادا کرتے ہیں، قیام امن کے لیے امریکا کی ہر کوشش کے ساتھ بھرپور تعاون کریں گے۔ان خیالات کااظہار انہوں نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اور نیویارک پوسٹ کو دئیے گئے انٹرویو ز میں کیا ۔بی بی سی سے گفتگوکرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم امن کا پیغام لے کر آئے ہیں، ممکنہ جوہری تنازع کے پس منظر میں بات چیت کرنا چاہتے ہیں، ہم جس سے بھی مل رہے ہیں وہ نہ صرف ہمارے موقف کو سن رہا ہے بلکہ اس کو سراہ بھی رہا ہے اور مدد کرنے کی خواہش کا اظہار بھی کر رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کا سارا عمل مکمل کیا، امریکہ اس عمل کا حصہ ہے۔ انھوں نے انتہائی قریب سے دیکھا کہ کس طرح پاکستان نے ان تمام گروپس کے خلاف ایکشن لیا، جب میں وزیر خارجہ تھا تو ہمارے ایکشن کی حمایت کرتے ہوئے تو پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے وائٹ لسٹ میں آ گیا۔انھوں نے کہا کہ اس عمل میں شامل تمام ممالک پاکستان کے ان گروپس کے خلاف اقدامات کے بارے میں پر اعتماد ہیں۔

بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ جہاں تک ڈاکٹر شکیل آفریدی کی بات ہے تو یہ ایک پوائنٹ ہے جو مسلسل اٹھایا جاتا ہے۔ تاہم بلاول نے کہا کہ ان کے حالیہ دورہ امریکہ کے دوران امریکی حکومت کی جانب سے نہیں بلکہ کانگریس کے رکن نے اس کا ذکرکیا۔ امریکی رکن کانگریس بریڈ شرمین کے سوشل میڈیا پر بیانات کے حوالے سے سوال پر بلاول بھٹو نے واضح کیا کہ امریکی رکن کانگریس نے ان سے ملاقات میں جیش محمد اور اقلیتی برادری کے حوالے سے بات نہیں کی۔بلاول نے کہا کہ بہتر ہوتا کہ اگر وہ یہ ساری باتیں میرے منہ پر کرتے تو میں انھیں جواب دے سکتا۔ کافی ایسی باتیں ٹویٹ میں کی گئیں جو ہماری گفتگو کا حصہ نہیں تھیں۔ اگر آگے جا کر دوبارہ ملاقات ہوتی ہے تو تفصیل میں ایسے موضوعات پر بات کریں گے۔بلاول نے مزید کہا کہ بریڈ شرمین انڈیا کے بہت نزدیک رہے ہیں حتی کہ وہ بھی انڈیا کے ساتھ ہماری جنگ کے دوران یہ ٹویٹ کرتے رہے کہ انڈیا نے دہشتگردی کے اس واقعے میں وہ ثبوت پیش نہیں کیے جس کی وجہ سے اسے پاکستان کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔بلاول بھٹو نے ہنستے ہوئے کہا کہ مجھ نہیں معلوم کے ششی تھرور نے بریڈ شرمین کی یہ والی ٹویٹ یا پیغام شیئر کیا یا نہیں۔بی بی سی کے اس سوال پر کہ انڈین وفد کی تو امریکی نائب صدر جے ڈی وینس سے بھی ملاقات ہوئی، آپ کے وفد کی ٹرمپ انتظامیہ میں کسی بڑی شخصیت سے ملاقات کیوں نہیں ہوئی؟

بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستانی وفد نے امریکہ میں جے ڈی وینس سے ملاقات کی خواہش کا اظہار نہیں کیا، جہاں ملاقات کے لیے ہم نے خواہش کا اظہار کیا، یا جہاں سے ان کی طرف سے ملاقات کا کہا گیا تو ہم وہاں پہنچے۔تو آپ نے جے ڈی وینس سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیوں نہیں کیا؟ اس پر بلاول نے بتایا کہ ہمارا دور امریکہ کا پہلا فوکس اقوامِ متحدہ تھا، پھر ہم نے سمجھا کہ سینیٹ، کانگریس اور پارلیمنٹ ہیں کیونکہ وہاں پر بہت فیصلے ہوتے ہیں اور وہ بھی بہت اثرورسوخ رکھتے ہیں۔محکمہ خارجہ میں ملاقاتیں کیں، بہت سے تھنک ٹینک ہیں جو امریکہ کی پالیسی سازی میں کردار ادا کرتے ہیں، ہم نے وہاں پر دورے کیے لیکن میرے خیال میں ہمارے دورے کے لیے یہ ہی مناسب تھا۔ بلاول بھٹو نے یہ بھی کہا کہ انڈین وزیراعظم نریندر مودی کو چینی کمپنی ٹیمو سے تشبیہہ دینے کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو ان کی بات کم الفاظ میں سمجھ میں آ جائے۔جب بلاول سے پوچھا گیا کہ آپ کبھی مودی کو گجرات کا قصاب اور کبھی نیتن یاہو کا ٹیمو ورژن کہتے ہیں اور ساتھ ہی جامع مذاکرات کی بات بھی کرتے ہیں، تو بلاول نے پوچھا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اگر میرے بیانات نہ ہوتے تو مودی اس وقت میرے ساتھ بیٹھے ہوتے؟۔

انھوں نے مزید کہا کہ ٹیمو بہت بڑی اور امیر چینی کمپنی ہے، جو مصنوعات وہ بناتے ہیں انھیں خود بھی پتا ہے کہ ان کی کوالٹی کمزور ہوتی ہے اور ان کی قیمت بھی انتہائی کم ہوتی ہے لیکن میں نے یہ بیان ایسے نہیں دیا۔مجھ سے ایک سوال کیا گیا تو میں نے یہ الفاظ ضرور استعمال کیے، آج کل ڈیجیٹل میڈیا کے دور میں لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے، میرا ماننا ہے کہ بہت کم الفاظ میں آپ بہت کچھ کہہ سکتے ہیں اور بہت کچھ لوگوں تک پہنچا بھی سکتے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ میرا وہ پیغام آپ کو جتنا بھی سخت لگ رہا ہو گا، اس لحاظ سے کافی کامیاب رہا۔بلاول نے مزید کہا کہ مودی کو گجرات کے قصاب کا لقب انھوں نے یا کسی پاکستانی نے نہیں دیا بلکہ مودی کے اپنے عوام نے دیا۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مودی جی تاریخ کے دوراہے پر کھڑے ہیں۔ کیا وہ گجرات کے قصاب، کشمیر کے قصاب بننا چاہیں گے یا وہ امن قائم کر کے پاکستان اور انڈیا کے عوام کے مفاد میں، ایسا فیصلہ کرنا چاہیں گے جس کے بعد تاریخ انھیں اچھے انداز میں یاد رکھے گی۔سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ یہ دنیا بھر میں ایک انتہائی اہم ایشو ہے۔بلاول بھٹو نے کہا کہ اگر پاکستان کے تناظر میں آپ پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی اجازت دیں گے تو کل کسی اور ملک میں یہ ہی کام ہو گا۔ ایک دن یہ انڈیا کے لیے بھی ہو سکتا ہے۔

انڈیا نے اس معاملے میں انتہائی غیر ذمہ دارانہ موقف اپنایا۔انھوں نے مزید کہا کہ جہاں تک پاکستان میں ڈیم بنانے کی بات ہے تو جہاں اتفاق رائے ہوتا ہے وہاں ڈیم بن جاتے ہیں۔ جیسے دیامر بھاشا ڈیم ہے، وہ منظور بھی ہو گیا اور اس پر کام بھی جاری ہے۔اس وقت پاکستان اگر کوئی ایسا فیصلہ لیتا جیسے کہ مثال کے طور پر ہم 10 ڈیم بنا رہے ہیں، تو میرے خیال میں ہماری بین الاقوامی پوزیشن کو بہت بڑا دھچکاپہنچے گا۔ اس لیے اگر ہم آج سے انڈیا کا یہ موقف مانتے ہیں کہ وہ سندھ طاس معاہدے سے نکل چکا اور اس موقف کو مانتے ہوئے اپنی تیاری کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم یہ جنگ ہار گئے۔ ہم نے محاذ ہی چھوڑ دیا، ہم پچ سے اٹھ کر چلے گئے۔اندرونی سیاست اپنی جگہ، ہر ڈیم کی آپ کو سیاسی، تکنیکی اور معاشی پہلو دیکھنا ہوتے ہیں لیکن بین الاقوامی سطح پر سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے انڈیا نے بہت بڑا اعلان کر دیا ہے، آپ نے خود کہہ دیا کہ اس پر عملدرآمد ہو گا تو جنگ ہو گی، تو اگر انڈیا ہماری پانی کی سپلائی روکتا ہے تو اس صورت میں جنگ ہو گی۔بلاول بھٹو نے کہا کہ انڈیا پاکستان کشیدگی کے موقع پر ملک میں اتحاد کے لیے وہ چاہتے ہیں کہ عمران خان سے بات ہو لیکن عمران خان تو صرف فوج سے بات کرنا چاہتے ہیں۔اس سوال پر کہ انڈیا پاکستان کشیدگی کے بعد ہمیں انڈیا میں تو سیاسی اتحاد نظر آتا ہے لیکن پاکستان میں تو اپوزیشن جماعت کے سربراہ جیل میں ہیں، تو اس لیے پاکستان میں تو اس معاملے پر بھی سیاسی تقسیم نظر آتی ہے، آپ کے خیال میں کیا ایسے موقع پر عمران خان کے ساتھ بات کرنی چاہیے؟

بلاول نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ انڈین وفد کافی بڑا ہے، وہ پارلیمانی وفد ہے جبکہ پاکستان کا حکومتی وفد ہے۔ جس میں حکومت، اس کے اتحادی، ٹیکنوکریٹس اور سابق سفارتکار شامل ہیں۔ پارلیمانی وفد میں اپوزیشن کی نمائندگی بھی ہوتی ہے لیکن یہ وفد جسے ایک ٹاسک سونپا گیا، حکومتی وفد ہے۔ تو اسی لحاظ سے آپ کو نمائندگی نظر آ رہی ہے۔جہاں تک اتحاد کی بات ہے تو جنگ کے دوران پورا ملک ایک تھا، یہ انڈیا کی غلط فہمی تھی کہ شاید ہم اتنے تقسیم ہو چکے ہیں کہ جنگ کے ماحول میں بھی اکٹھے نہیں ہوں گے۔ انڈیا غلط ثابت ہوا۔ وزیراعظم نے پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے اپوزیشن کو سپیکر آفس میں ملاقات کی پیشکش بھی کی تھی لیکن عمران خان کی سیاست غیر جمہوری اور غیر پارلیمانی رہی ہے، انھیں جمہوری نظام کو مضبوط بنانے کی خواہش کبھی نہیں رہی۔عمران خان آج بھی کہتے ہیں کہ وہ حکومت سے نہیں بلکہ فوج سے بات کرنے کو تیار ہیں۔اس سوال پر کہ عمران خان کے اختلافات یا تو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہیں یا پھر مسلم لیگ ن کے ساتھ تو اس کے حل کے لیے کیا پیپلز پارٹی کوئی کردار ادار کر سکتی ہے؟بلاول نے کہا کہ پیپلز پارٹی کا ریکارڈ پر آپ کے سامنے ہے، ہم یہ چاہیں گے کہ پاکستان میں مزید اتحاد ہو، سیاست میں مفاہمت ہو لیکن کوشش دونوں طرف سے ہوتی ہے۔ میں خواہش تو رکھ سکتا ہوں لیکن پی ٹی آئی میں ایسی سیاست ہی نظر نہیں آتی۔ وہ انتہا پسند سیاست کرتے ہیں۔ وہ انتہا پسند پوزیشنز لیتے ہیں اور ایک سیاسی بندے کے لیے ان پوزیشنز کو سمجھنا مشکل ہوتا ہے۔

انھوں نے عمران خان کے بارے میں مزید کہا کہ آپ ملک کے سابق وزیراعظم رہے ہیں، آپ سیاست دانوں میں سے ہیں اور ہر بار یہ کہنا کہ آپ سیاست دانوں سے بات نہیں کریں گے، ان کا اپنا فیصلہ ہے۔دریں اثنا نیویارک پوسٹ کو انٹرویو میں بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان کا پانی بندکرنیکی کوشش کی تو جنگی اقدام تصور ہوگا، جنگ بندی تعاون میں کردار ادا کرنے پر امریکی قیادت کا شکریہ ادا کرتے ہیں، قیام امن کے لیے امریکا کی ہر کوشش کے ساتھ بھرپور تعاون کریں گے۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ اگر بھارت میں کوئی دہشت گردی ہوتی ہے، تو اسے فوری طور پر جنگ کا اعلان سمجھا جاتا ہے، اسی اصول کے تحت اگر پاکستان پر ایسا حملہ ہو تو ہمیں بھی اسے جنگ تصور کرنا پڑے گا۔بلاول بھٹو نے جنگ بندی تعاون میں کردار ادا کرنے پر امریکی قیادت کی تعریف کی اور قیامِ امن کے لیے مذاکرات کے لیے اور سفارت کاری پر زور دیتے ہوئے امید ظاہر کی کہ امریکا خطے میں امن کے قیام میں موثر کردار ادا کرتا رہیگا، پاکستان امن کی ہر کوشش میں بھرپور تعاون کرے گا۔انہوں نے مزید کہا کہ ہماری پیغام رسانی یہ رہی ہے کہ جنگ بندی ایک آغاز ہے، لیکن صرف ایک آغاز ، ہم امریکا سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ بات چیت اور سفارت کاری کے ذریعے امن کے قیام میں ہماری مدد کرے۔انہوں نے خبردار کیا کہ ہم سب اس تنازع کے باعث پہلے سے کہیں زیادہ غیر محفوظ ہو چکے ہیں، بھارت اور پاکستان کے درمیان مکمل فوجی تصادم کا امکان اب تاریخ میں پہلی بار سب سے زیادہ ہو چکا ہے، امریکا کی ثالثی سے ہونے والی یہ جنگ بندی 10 مئی کو نافذ ہوئی، جو کئی ہفتوں کی لڑائی کے بعد ممکن ہو سکی۔بھارت نے پاکستان پر الزام لگایا تھا کہ وہ 22 اپریل کو پہلگام میں دہشت گرد حملے کی پشت پناہی کر رہا تھا، جس میں 26 سیاح ہلاک ہوئے تھے

زیادہ تر ہلاک شدگان ہندو تھے، اور بھارتی وزیر خارجہ وکرم مِسری نے اس حملے کا الزام لشکر طیبہ پر عائد کیا تھا۔پاکستانی وفد نے واشنگٹن میں ملاقاتوں کے دوران بھارت کے ساتھ انسداد دہشت گردی کے تعاون پر آمادگی ظاہر کی، تاہم انہوں نے اس حملے میں اسلام آباد کے ملوث ہونے کی تردید کی۔بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان کے وزیر اعظم نے غیر جانب دار بین الاقوامی تحقیق کی پیشکش کی تھی، کیوں کہ ہمیں یقین ہے کہ پاکستان اس واقعے میں ملوث نہیں، بین الاقوامی انٹیلی جنس کمیونٹی بھی اسی مقف کی تائید کرتی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ جیسا کہ موجودہ حالات ہیں، اگر بھارت میں کہیں بھی کوئی دہشت گرد حملہ ہوتا ہے تو اس کا مطلب فورا جنگ تصور کیا جاتا ہے، اور ردعمل کے اصول کے تحت اگر پاکستان پر کوئی حملہ ہوگا تو ہم بھی اسے جنگ سمجھیں گے۔بلاول بھٹو نے بھارت کی جانب سے پاکستان کا پانی بند کرنے کی دھمکی کو بھی وجود کے لیے خطرہ قرار دیا، اور واضح کیا کہ اسے پاکستان جنگی اقدام تصور کرے گا۔انہوں نے کہا کہ اگر ہمیں بھارت کے ساتھ نئے مذاکرات میں داخل ہونا ہے، اور باہمی معاہدوں کی نئی راہیں نکالنی ہیں، تو یہ بھی ضروری ہے کہ بھارت پرانے معاہدوں، جیسے کہ سندھ طاس معاہدے، کی پاسداری کرے۔بلاول نے کہا کہ ہم نے فوجی برتری کے باوجود جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی، یہ شرط رکھ کر کہ یہ صرف پہلا قدم ہوگا۔انہوں نے صدر ٹرمپ کے بارے میں کہا کہ مجھے امید ہے کہ صدر امن کے لیے سنجیدہ ہیں اور وہ امریکا میں اس پیغام کو موثر طور پر آگے بڑھائیں گے، پاکستان یقینا تیار ہے۔بھارتی سفارت خانے نے اس پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی