چین میں کیلے کی کاشت کی تاریخ 2,000 سال قبل کی ہے،بین الاقوامی کیلے کی مارکیٹ میں چین کا حصہ تقریباً 4.5 فیصد ہے۔ تاہم پاکستان کا حصہ 0.5 فیصد سے بھی کم ہے۔ ہم بہت پیچھے ہیں میرے خیال میں چین اور پاکستان باہمی تحقیق کے ذریعے تعاون کر سکتے ہیں۔ ہم ترقی کر سکتے ہیں اور ایک دوسرے سے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار سی ای او، اسپراؤٹس بائیوٹیک لیبارٹریز نوشیروان حیدر نے چائنہ اکنامک نیٹ کو ایک انٹرویو میں کیا ۔ آج تک کیلے پر پاک چین تعاون اب بھی بہت محدود ہے۔ پاکستان میں کیلے کی پیداوار اور برآمدات بڑھانے میں اعلیٰ معیار کے بیج، جدید کاشتکاری ٹیکنالوجی اور لاجسٹک سہولت کی کمی ایک بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے، جس کے لیے پاکستانی محققین اور کسان چین سے تعاون کے منتظر ہیں۔ چائنہ اکنامک نیٹ کے مطابق این کیو فارمز کے ایک کسان عمران شاہ نے کہا ہمارے یہاں بنیادی مسئلہ اچھے بیجوں کا انتخاب ہے اور یہاں کھاد کی شرح بہت زیادہ ہے۔
ہمارے پاس اچھے بیجوں کی کمی ہے۔ آج کل ہمارے یہاں ایک قسم کا بیج موجود ہے جسے ٹشو کلچر سیڈ کہا جاتا ہے جو کہ چین سے بھی درآمد کیا جاتا ہے۔ ہمیں اچھے بیجوں کا انتخاب کرنا چاہیے۔ چین پہلے ہی اس میں ہماری مدد کر رہا ہے۔ لیکن اگر ہمیں مزید مدد ملتی ہے تو ہم بہتر نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔ سی ای او اسپراؤٹس بائیوٹیک لیبارٹریز نوشیروان حیدر نے سی ای این کو بتایا کہ جب بات پودے لگانے کی ٹیکنالوجی کی ہو تو پاکستان کی کچھ لیبز میں کیلے کے ٹشو کلچر پر تحقیق کی جا رہی ہے۔ ٹشو کلچر کیلے کی پیداوار ہمارے روایتی کیلے سے تین گنا زیادہ ہے۔ روایتی کیلے کی کاشت 16 سے 18 ماہ میں ہوتی ہے جبکہ ہمارے ٹشو کلچر کیلے کا پھل ساتویں مہینے میں ہوتا ہے۔ ٹشو کلچر کیلا بیماری سے پاک اور سخت موسم کو برداشت کرنے والا ہے۔ ہماری لیب میں تیار کردہ پودوں کی پیداوار سال بھر جاری رہتی ہے۔ لوگوں کو اس سے بہت فائدہ ہوتا ہے ۔ چائنہ اکنامک نیٹ کے مطابق تاہم جیسا کہ نوشیروان حیدر دیکھتے ہیں پاکستان کے بیشتر علاقوں میں کیلے کی کاشت مناسب طریقے کے مطابق نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے کیلے کی پیداوار اتنی زیادہ نہیں ہوتی جتنی کہ ہونی چاہیے۔
پاکستانی محققین چینی ٹیکنالوجیز کے خواہاں ہیں جو پاکستان کو کیلے کی مقامی پیداوار کو مزید بہتر بنانے میں مدد کر سکتی ہیں۔ چائنہ اکنامک نیٹ کے مطابق نوشیروان حیدر نے کہا چین میں کیلے کی بہت سی نئی اقسام متعارف کرائی گئی ہیں۔ چین سے ذائقے دار کیلے بھی نکل رہے ہیں۔ چین زیادہ پیداوار دینے والی اقسام پر کام کر رہا ہے جن کی پیداوار زیادہ ہے اور ہر موسم میں ایک ہی قسم کے پھل پیدا کرنے کی صلاحیت ہے۔ ہمیں چین کے ساتھ تعاون کے ذریعے ٹیکنالوجی کا تبادلہ کرنا چاہیے۔ پاکستانی کیلے کے برآمد کنندہ ابراہیم نظامانی کے مطابق اس وقت وہ ایران، عراق اور افغانستان کو کیلے برآمد کر رہے ہیں۔ چین، دنیا کی ایک بڑی منڈی کے طور پر، یقیناً پاکستان کی کیلے کی برآمدات کے لیے ایک خواب ہے۔ لیکن پاکستانیوں کو کیلے کے تحفظ اور نقل و حمل میں مشکلات کا سامنا ہے۔ چائنہ اکنامک نیٹ کے مطابق نوشیروان حیدر نے کہا پوسٹ ہارویسٹ مینجمنٹ سسٹم کو سکھایا جانا چاہئے، جیسے کیلے کی کٹائی کیسے کی جائے، کیلے کو کیسے پیک کیا جائے، اور کیلے کو منڈیوں میں کیسے منتقل کیا جائے۔ ہمارے 30 سے 40 فی صد پھل کٹائی اور نقل و حمل کے دوران تلف ہو جاتے ہیں۔
آپ نے بازار میں یہ بھی دیکھا ہوگا کہ کیلے پر کالے دھبے ہوتے ہیں یا کچھ جگہوں سے نرم پڑ جاتے ہیں۔ اس طرح پھل ضائع ہو جاتا ہے۔ ابراہیم نظامانی نے کہا کہ ہمارے کھیتوں میں کولڈ اسٹوریج نہیں ہے، اگر ہمارے پاس پیکنگ ہاؤس یا کولڈ سٹوریج کا نظام ہو تو کیلے کے معیار کو مزید بہتر کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، ان سب نے تحقیق کرنے اور پورے عمل کے دوران کیلے کے معیار کو یقینی بنانے کے لیے بجلی کی مستحکم فراہمی کی خواہش کا اظہار کیا۔ چائنہ اکنامک نیٹ کے مطابق نوشیروان حیدر نے کہا کیلے کی کاشت پر پاک چین تعاون کے فروغ سے مستقبل میں دونوں ممالک کے لیے جیت کی امید ہے۔ چین اور پاکستان مشترکہ تحقیق کے ذریعے تعاون کر سکتے ہیں۔ ہم ترقی کر سکتے ہیں اور ایک دوسرے سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ پاکستان میں ہمارے پاس بہت زیادہ زمین ہے۔ ہمارے پاس موسم اچھا ہے۔ ہمارے پاس لیبر فورس ہے۔ چین کے پاس ٹیکنالوجی ہے۔ ہم زرعی طریقوں اور ہائبرڈ اقسام سے متعلق کچھ ٹیکنالوجیز حاصل کرکے چین سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ چین کو بھی فائدہ پہنچے گا اور ہم چین پاکستان اقتصادی راہداری ( سی پیک ) کے ذریعے چین کو کیلے برآمد کر سکتے ہیں۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی