اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار نے سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ غزہ میں فلسطینیوں کی ناقابل تصور تکالیف ختم کرانے کیلئے فوری اقدامات کیے جائیں، جو عام شہریوں کے خلاف ہے، ختم ہونی چاہیے۔پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار نے یہ بات مشرق وسطی سے متعلق سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب میں کہی۔انہوں نے کہا کہ ہمیں زمینی صورت حال کی سنگینی کا بھی ادراک ہونا چاہیے اور یہ صرف ہم یا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اراکین ہی نہیں جو یہ منظر دیکھ رہے ہیں یا تشویش میں مبتلا ہیں ، بلکہ پوری دنیا بے یقینی کے عالم میں یہ سب دیکھ رہی ہے۔پاکستانی مندوب نے کہا کہ اسرائیل کی جنگ میں سب سے زیادہ نقصان عام شہریوں کو اٹھانا پڑا ہے۔ کوئی بھی جواز ان اندھی گولیوں، ایک پوری آبادی کو بھوکا مارنے اور محصور لوگوں کو اجتماعی سزا دینے کو درست قرار نہیں دے سکتا۔انہوں نے کہا کہ یہ اقدامات صرف اخلاقی طور پر قابلِ مذمت نہیں بلکہ بین الاقوامی قانون، بشمول جنیوا کنونشنز، کی سنگین خلاف ورزیاں ہیں اور بین الاقوامی عدالتِ انصاف کے جاری کردہ پابند احکامات کی کھلی خلاف ورزی کے مترادف ہیں۔پاکستانی مندوب کا کہنا تھا کہ غزہ میں انسانی بحران بے مثل حد تک شدت اختیار کر چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین کے مطابق،اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کو حراست میں رکھنے، ان پر دہائیوں سے جاری منظم مظالم اور من مانے طریقے سے گرفتاریوں کی پالیسی، اور 7 اکتوبر 2023کے بعد ریاستی سطح پر احتساب کی مکمل غیر موجودگی ایک ہولناک منظرنامہ پیش کرتی ہے۔
عاصم افتخار نے کہا کہ اس وقت تقریبا ساڑھے 9 ہزار فلسطینی، جن میں سیکڑوں خواتین اور بچے شامل ہیں، اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں، جن میں سے ایک تہائی کے خلاف کوئی چارج یا مقدمہ نہیں ہے۔ یہ بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے اور بالکل ناقابلِ قبول ہے۔پاکستانی مندوب نے کہا کہ واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق 60 ہزار فلسطینی شہید کیے جا چکے ہیں جن میں 18 ہزار 500 بچے شامل ہیں۔ ان بچوں کے نام اور عمریں بھی امریکی اخبار نے شائع کی ہیں۔پاکستانی مندوب کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے معروف اخبار ہارٹز نے بھی غزہ کی صورت حال کو 21 ویں صدی کی سیاسی بنیاد پر کی جانے والی بھوک سے مارنے کی سب سے سنگین مثال قرار دیا ہے۔ عاصم افتخار نے کہا کہ اس صورتحال کے نتائج نہایت ہولناک ہیں: کم از کم 175 فلسطینی، جن میں 93 بچے شامل ہیں، بھوک سے شہید ہو چکے ہیں۔اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل نے خبردار کیا ہے کہ غزہ اب مکمل قحط کے دہانے پر ہے۔ لوگ اس لیے نہیں بھوکے مر رہے کہ خوراک دستیاب نہیں، بلکہ اس لیے کہ خوراک تک رسائی روک دی گئی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یونیسف نے اس صورتحال کو بچوں کے لیے تکالیف کا مکمل طوفان قرار دیا ہے، جبکہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اسے عظیم انسانی تباہی سے تعبیر کیا ہے۔ورلڈ فوڈ پروگرام نے بالکل واضح الفاظ میں کہا ہے: یہ ایک ایسی تباہی ہے جو ہماری آنکھوں کے سامنے، ہماری ٹی وی اسکرینوں پر رونما ہو رہی ہے۔
پاکستانی مندوب نے کہا کہ اب تو انسانی امداد کی فراہمی بھی جان لیوا بن چکی ہے۔ مئی کے بعد سے 1200 سے زائد امدادی کارکنان شہید کیے جا چکے ہیں۔نیو یارک ٹائمز کے مطابق، فلسطینیوں کو 2 ہلاکت خیز راستوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑتا ہے: یا تو بھوک سے مرنے کا، یا خوراک حاصل کرنے کے لیے گولیوں کی زد میں آنے کا۔پاکستان کے مستقل مندوب نے مطالبہ کیا کہ یہ جنگ، جو عام شہریوں کے خلاف ہے، ختم ہونی چاہیے۔ پاکستان فوری، غیر مشروط اور مستقل جنگ بندی، مکمل اسرائیلی انخلا، یرغمالیوں کی رہائی، اور انسانی امداد کی آزادانہ فراہمی کا مطالبہ کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ مصر، قطر اور امریکا کی ثالثی میں ہونے والی ابتدائی جنگ بندی کے نتیجے میں 33 یرغمالیوں کو رہا کیا گیا تھا، مگر اسرائیل کی جانب سے اس جنگ بندی سے یکطرفہ انحراف کے سبب مزید رہائی ممکن نہ ہو سکی۔ یوں مصیبت بدستور جاری ہے۔عاصم افتخار نے کہا کہ امن کے مفاد میں ہمیں عرب اسرائیل تنازعے کی تاریخی نوعیت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں اس دیرینہ سانحے کی جڑ کو نہیں بھولنا چاہیے اور وہ ہے: فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کا طویل، غیر قانونی قبضہ۔ جب تک یہ قبضہ برقرار ہے
امن صرف ایک سراب رہے گا۔ان کا کہنا تھا کہ پائیدار امن کے لیے ایک سنجیدہ سیاسی افق درکار ہے، جو بین الاقوامی قانون پر مبنی ہو اور جس کا مقصد 1967 سے پہلے کی سرحدوں کے مطابق، القدس الشریف کو دارالحکومت بنا کر ایک خودمختار، قابلِ بقا اور مربوط فلسطینی ریاست کا قیام ہو۔انہوں نے کہا کہ حالیہ اعلی سطحی کانفرنس جس کا مقصد فلسطینی مسئلے کا پرامن حل اور دو ریاستی حل پر عملدرآمد تھا، ایک بروقت پیش رفت تھی۔ اب اسے عملی، مربوط اور بین الاقوامی سطح پر مربوط کوششوں سے مکمل کرنا ناگزیر ہے تاکہ مشرق وسطی میں بالآخر مطلوبہ امن اور استحکام ممکن ہو سکے۔عاصم افتخار نے واضح کیا کہ انسانی حقوق عالمگیر اور ناقابلِ تقسیم ہیں۔ انہیں سرحدوں میں نہیں بانٹا جا سکتا اور انصاف کبھی بھی انتخابی بنیاد پر نہیں ہونا چاہیے۔ قانونی، سیاسی اور اخلاقی تقاضا بالکل واضح ہے۔ ہمیں اب اقدام کرنا ہوگا تاکہ اسرائیل کی وحشیانہ اور غیر قانونی جنگ اور فلسطینی عوام کی ناقابلِ تصور تکالیف کا خاتمہ ہو۔ انسانیت اور دونوں طرف کے عام شہریوں کی عزت و حرمت اس سے کم پر راضی نہیں ہو سکتی۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی