سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں پر نظرثانی کیس کی سماعت سے قبل جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے نظرثانی درخواستوں کے دائرہ کار پر اہم فیصلہ جاری کر دیا ۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نظرثانی کی درخواست صرف آئین کے آرٹیکل 188 اور سپریم کورٹ کے قواعد و ضوابط کے تحت ہی کی جا سکتی ہے۔فیصلے کے مطابق کسی بھی عدالتی فیصلے پر محض ایک فریق کا عدم اطمینان، نظرثانی کی بنیاد نہیں بن سکتا۔ نظرثانی کی درخواست میں کسی واضح قانونی یا فنی غلطی کی نشاندہی ضروری ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ وہ نکات جو پہلے مقدمے میں مسترد ہو چکے ہوں، انہیں نظرثانی میں دوبارہ نہیں اٹھایا جا سکتا، اور نہ ہی یہ دلیل قابلِ قبول ہے کہ فیصلے میں کوئی دوسرا نقطہ نظر شامل کیا جا سکتا تھا۔فیصلے میں اس امر پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا کہ پاکستان میں اس وقت تقریبا 22 لاکھ مقدمات زیر التوا ہیں، جن میں سے 56 ہزار سے زائد کیسز سپریم کورٹ میں التوا کا شکار ہیں۔ ان میں ایک بڑا حصہ غیر ضروری اور من گھڑت نظرثانی درخواستوں کا ہے، جن کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہئے۔یہ فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل بنچ نے جاری کیا ہے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی