i آئی این پی ویلتھ پی کے

پاکستان میں زیتون کی کاشت تجربات سے نکل کر تجارتی توسیع کی جانب گامزن،ویلتھ پاکستانتازترین

December 23, 2025

پوٹھوہار کے علاقے کے کسانوں کو زیتون کی تجارتی بنیادوں پر کاشت کی طرف آنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ اس کے لیے حکومت نئی مراعات، پروسیسنگ سہولیات میں توسیع اور مفت رہنمائی کی خدمات فراہم کر رہی ہے۔بارانی زرعی تحقیقاتی ادارہ چکوال میں قائم سینٹر آف ایکسیلینس فار اولیو ریسرچ اینڈ ٹریننگ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد رمضان انصر نے ویلتھ پاکستان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ زیتون کی فصل اب اتنی آمدن دے رہی ہے کہ کم منافع والی روایتی فصلوں کی جگہ لے سکتی ہے۔انہوں نے کسانوں کو واضح پیغام دیا کہ زیتون کو تجارتی پیمانے پر کاشت کریں کیونکہ یہ پودا نہ صرف کھیت بلکہ کسان کی زندگی بھی بدل سکتا ہے۔ڈاکٹر رمضان کے مطابق حکومت نے 15 مارچ 2026 تک نئے باغات کے لیے درخواستیں طلب کر رکھی ہیںجبکہ سی فورٹ نے کسانوں کی رہنمائی کے لیے ہیلپ لائن اور آن لائن سہولیات بھی فراہم کر دی ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں زیتون کا شعبہ اب سست رفتاری سے کیے جانے والے تجربات کے مرحلے سے نکل کر ایک منظم تجارتی نظام کی طرف بڑھ رہا ہے جس کی بنیاد حکومتی سبسڈی، تحقیق اور نجی سرمایہ کاری پر ہے۔انہوں نے بتایا کہ پنجاب حکومت نے باغات کی ترقی کے لیے ایک بڑا امدادی پروگرام شروع کیا ہے جس کے تحت کم از کم پانچ ایکڑ زمین رکھنے والے کسان منظور شدہ نرسریوں سے تصدیق شدہ پودے حاصل کر سکتے ہیں۔

ہر پودے پر 360 روپے کی سبسڈی دی جا رہی ہے جبکہ تین سالہ منصوبے کے دوران فی ایکڑ تقریبا 58 ہزار روپے فراہم کیے جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ اس سے کسانوں کو ملکیت کا احساس ملتا ہے اور اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے۔یہ پروگرام کئی دہائیوں کی ہچکچاہٹ کے بعد ایک نیا دور ثابت ہو رہا ہے کیونکہ ماضی میں زیتون کو پاکستان کے لیے موزوں فصل نہیں سمجھا جاتا تھا۔ 1991 میں تجربات کے آغاز کے بعد بارانی زرعی تحقیقاتی ادارے نے درجنوں اقسام کی جانچ کی، نجی شعبے میں نرسریاں قائم کیں اور مقامی سطح پر مہارت پیدا کی جس نے آج کی توسیع کی بنیاد رکھی۔ڈاکٹر رمضان نے کہا کہ اب یہ شعبہ مکمل ویلیو چین ماڈل پر کھڑا ہے جس میں محققین، کسان، پروسیسرز، کاروباری افراد اور مارکیٹنگ سے وابستہ لوگ شامل ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ملک بھر میں 85 سے زائد زیتون کے برانڈز سامنے آ چکے ہیںجس کی وجہ عوامی اعتماد میں اضافہ، نجی شعبے کی شمولیت، عالمی تعاون اور طویل المدتی تربیتی پروگرام ہیں جن میں نوجوانوں، خواتین اور چھوٹے کاروباروں کو شامل کیا گیا۔سی فورٹ اب ایک قومی سطح کا مشاورتی مرکز بن چکا ہے۔

کسان پھل کے نمونے بھیجتے ہیں، فنی مدد طلب کرتے ہیں اور آن لائن گروپس کے ذریعے رہنمائی حاصل کرتے ہیںجہاں 24 گھنٹوں کے اندر جواب دیا جاتا ہے۔ادارہ کم پیداوار والے کھیتوں کو شراکت دار مقامات میں تبدیل کرتا ہے اور مسائل کی نشاندہی کرتا ہے، جیسے غلط کٹائی یا زرعی طریقوں سے متعلق معلومات کی کمی ہے۔انہوں نے بتایا کہ جنگلی زیتون کے درختوں سے فائدہ اٹھانا بھی ایک اہم ترجیح بن چکا ہے۔ اکثر کسانوں کو پیوندکاری کے بعد مسئلہ پیش آتا ہے کیونکہ مقامی شاخیں دوبارہ اگ آتی ہیں تاہم اب سی فورٹ اطالوی طریقوں پر تربیت دیتا ہے اور کم قیمت پر تصدیق شدہ قلمیں فراہم کرتا ہے۔پنجاب حکومت زیتون کی پروسیسنگ صلاحیت بڑھانے کے لیے کولڈ پریس یونٹس پر پچاس فیصد سبسڈی دینے کی تیاری کر رہی ہے تاکہ کسان باغات کے قریب ہی تیل نکال سکیں، معیار بہتر رہے اور نقل و حمل کے اخراجات کم ہوں۔ جیسے جیسے زیتون کی کاشت کا رقبہ تیزی سے بڑھ رہا ہے یہ اقدام انتہائی ضروری قرار دیا جا رہا ہے۔

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی ویلتھ پاک