اوکاڑہ کے علاقے بہادر نگر میں واقع لائیو اسٹاک پروڈکشن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ایک ایسے منصوبے پر کام کر رہا ہے جس کے تحت کم صلاحیت رکھنے والی پاکستانی گائے کی نسل کو زیادہ دودھ دینے والی برازیلین نسل جیرولانڈو کے ساتھ ملا کر دودھ اور گوشت کی پیداوار میں اضافہ کیا جائے گا۔جیرولانڈو نسل برازیل میں بھارتی نسل گر اور ہولسٹین نسل کے ملاپ سے تیار کی گئی تھی۔ گر نسل اپنی سخت جان فطرت کے لیے مشہور ہے جبکہ ہولسٹین نسل زیادہ دودھ دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ماہرین کے مطابق جیرولانڈو گائے میں ایسی جسمانی خصوصیات پائی جاتی ہیںجیسے رنگ دار جلد، مضبوط کھر اور گرمی کو برداشت کرنے کی بہتر صلاحیت جو انہیں پنجاب جیسے گرم علاقوں کے لیے موزوں بناتی ہیں۔تقریبا ایک کروڑ 76 لاکھ روپے کی لاگت سے تیار کیا گیا یہ منصوبہ تین سال میں اوکاڑہ کے اسی ادارے میں مکمل کیا جائے گا۔ادارے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر مقصود اختر نے ویلتھ پاکستان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس منصوبے کا مقصد پاکستانی گائے کی دودھ دینے کی صلاحیت کو عالمی معیار تک لانا ہے۔پاکستان میں گائے کی مقامی نسلوں میں ساہیوال، چولستانی، ڈاجال، دھنی، لوہانی، بھگناری، تھری، حصار اور روہجان شامل ہیںجبکہ بڑی تعداد میں غیر معروف نسل کی گائیں بھی موجود ہیں۔
ڈاکٹر اختر نے بتایا کہ مقامی اور غیر معروف نسل کی گائیں اوسطا روزانہ صرف دو سے چار لیٹر دودھ دیتی ہیںجبکہ ایک دودھ دینے کے دورانیے میں ان کی پیداوار آٹھ سو سے بارہ سو لیٹر تک ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں دنیا بھر میں بہتر کراس بریڈ گائیں ایک دورانیے میں ڈھائی ہزار سے تین ہزار لیٹر دودھ دیتی ہیں۔ اسی طرح گوشت کی پیداوار بھی کم ہے جہاں اس کا وزن اسی سے سو کلوگرام ہوتا ہے، جبکہ بہتر نسل میں یہ وزن ایک سو اسی سے دو سو کلوگرام تک پہنچ جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس کم پیداوار کا براہ راست اثر غذائیت پر پڑتا ہے کیونکہ پاکستان میں فی کس جانوروں سے حاصل ہونے والی پروٹین صرف اٹھارہ سے بیس گرام روزانہ ہے جو عالمی اوسط سے بہت کم ہے۔یہ منصوبہ ان خامیوں کو دور کرنے کے لیے جیرولانڈو نسل متعارف کرا رہا ہے جو دوہری مقصد کی حامل ہے، یعنی دودھ اور گوشت دونوں کے لیے موزوں ہے۔ یہ نسل روزانہ آٹھ سے بارہ لیٹر دودھ دیتی ہے، گرمی اور بیماریوں کو بہتر طور پر برداشت کرتی ہے اور اے ٹو قسم کا دودھ پیدا کرتی ہے جسے انسانی صحت کے لیے بہتر سمجھا جاتا ہے۔غیر معروف نسل کی گائے کے ساتھ جیرولانڈو کی کراس بریڈنگ سے دودھ کی پیداوار میں دو سے تین گنا اضافہ اور گوشت کی پیداوار میں چالیس سے پچاس فیصد بہتری کا ہدف رکھا گیا ہے۔ماہرین کے مطابق اس منصوبے سے کسانوں کی آمدن میں نمایاں اضافہ ہوگا۔
لائیو اسٹاک کے محقق ڈاکٹر عبد المنان نے کہا کہ ہر بہتر نسل کی گائے دودھ سے سالانہ تقریبا دو لاکھ پچیس ہزار روپے اور گوشت سے ساٹھ سے ستر ہزار روپے اضافی آمدن دے سکتی ہے۔ اس طرح دو سے تین جانور رکھنے والا گھرانہ سالانہ پانچ سے سات لاکھ روپے اضافی کما سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ معاشی لحاظ سے یہ منصوبہ چھوٹے کسانوں کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہوگا اور روایتی لائیو اسٹاک نظام کو منافع بخش کاروبار میں بدل دے گا۔یہ منصوبہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے میں بھی مدد دے گاکیونکہ بہتر خوراک کے استعمال سے دودھ کی فی لیٹر پیداوار پر گرین ہاوس گیسوں کے اخراج میں تقریبا تیس فیصد کمی آئے گی۔ادھر برازیل سے اعلی نسل کی گائے کی درآمد کا عمل بھی شروع ہو چکا ہے۔ وفاقی وزارتِ غذائی تحفظ و تحقیق کے مشیر ڈاکٹر محمد جنید نے ویلتھ پاکستان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ درآمد گرین پاکستان لائیو اسٹاک انیشی ایٹو کا حصہ ہے جس کا مقصد مقامی لائیو اسٹاک کے معیار اور پیداوار میں بہتری لانا ہے۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس کراس بریڈنگ سے غیر معروف نسل کی گائے کی دودھ دینے کی صلاحیت بہتر ہوگی جو پاکستان میں گائے کی کل آبادی کا تقریبا پینتالیس فیصد ہیں۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی ویلتھ پاک