حکومت بینکوں، فارن ایکسچینج کمپنیوں اور سونے کی تجارت کے لیے کرپٹو کرنسیوں کو اپنانے کے عمل کو تیز کرنے کے لیے تیار دکھائی دیتی ہے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز ہونے والے اعلی سطح کے اجلاس کے بعد ذرائع نے بتایا کہ ایک روز قبل اسٹیٹ بینک آف پاکستان، وزارت خزانہ، کمرشل بینکوں اور ایکسچینج کمپنیوں کے نمائندوں نے سینئر سیکیورٹی حکام کے ساتھ ملاقات کی، تاکہ ڈالر کی قیمت کو کم کرنے، شرح مبادلہ کو مستحکم کرنے اور امریکی کرنسی کی افغانستان اور ایران اسمگلنگ کو روکنے کے اقدامات پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔گزشتہ روز ہونے والا دوسرا اجلاس کرپٹو ایجنڈا کے گرد گھومتا رہا، جس میں پاکستان کرپٹو کونسل (پی سی سی)کے سی ای او بلال بن ثاقب نے پاکستان میں ورچوئل کرنسیوں کے استعمال پر پریزنٹیشن دی۔مئی میں، بلال بن ثاقب کو وزیر مملکت کے درجے کے ساتھ وزیرِاعظم کا بلاک چین اور کرپٹو کرنسی کے معاملات پر خصوصی معاون مقرر کیا گیا تھا۔ایک بینکر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہمیں بتایا گیا کہ کرپٹو کرنسیز نئے معاشی نظام کی مستقبل کی کرنسیاں ہیں۔انہوں نے کہا کہ میٹنگ میں پریزنٹیشن اور اس کے بعد سوال و جواب کا سیشن تقریبا 80 فیصد وقت پر مشتمل تھا۔
اجلاس کے شرکا کا کہنا تھا کہ حکومت بظاہر کرپٹو کرنسیز کو بڑے پیمانے پر استعمال میں لانے اور انہیں جلد از جلد معیشت کا حصہ بنانے کی جلدی میں ہے۔اگرچہ بعض افراد نے اس میں شامل خطرات پر سوال اٹھائے، لیکن مسٹر بلال بن ثاقب نے قیاس آرائی کے خطرات کو کم اہمیت دی۔کرپٹو کرنسیاں برسوں سے مقبول ہیں، لیکن دنیا بھر کے زیادہ تر مرکزی بینک ان کے ضابطے سے دور رہے ہیں۔9 جولائی کو اسٹیٹ بینک کے گورنر جمیل احمد نے کہا تھا کہ وہ ایک ڈیجیٹل کرنسی کے لیے پائلٹ منصوبہ شروع کرنے کی تیاری کر رہے ہیں، اور ورچوئل اثاثوں کے ضابطے کے لیے قانون سازی کو حتمی شکل دے رہے ہیں۔اسٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ اس وقت پاکستان کرپٹو کونسل کے ساتھ مل کر ورچوئل اثاثوں کے لیے ایک مناسب قانونی اور ریگولیٹری فریم ورک تیار کرنے میں مصروف ہیں۔ایک مالیاتی ماہر کے مطابق خطرات اب بھی بہت زیادہ ہیں، کیوں کہ کرپٹو کرنسیز کی قیمتوں میں بڑے پیمانے پر اتار چڑھا آتا ہے، جیسے کہ بٹ کوائن کی قیمت 35 ہزار ڈالر سے 70 ہزار ڈالر تک جا سکتی ہے۔تاہم انہوں نے دعوی کیا کہ اسٹیٹ بینک اور حکومت دونوں کرپٹو ٹرانزیکشنز کے لیے تیار ہیں۔منگل کو بینکوں، فارن ایکسچینج کمپنیوں اور سونے کے تاجروں کو ان کرنسیوں کے فوائد سے آگاہ کیا گیا۔اجلاس کے شرکا کو بتایا گیا کہ مرکزی بینک کرپٹو ٹریڈنگ بینکوں اور دیگر مالیاتی اداروں کو لائسنس جاری کرے گا۔ایک بینکر نے اس امکان کی طرف اشارہ کیا کہ بڑے شہروں میں فیلڈ آفس کھولے جا سکتے ہیں، تاکہ ورچوئل اثاثوں تک رسائی آسان ہو اور ورچوئل ٹرانزیکشنز کو فروغ ملے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی