وزیراعلی بلوچستان میرسرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردی کی بڑی سازش ناکام بنا دی گئی جس میں یونیورسٹی کا لیکچرار سہولت کاری کر رہا تھا، یوم آزادی پر بچوں کو نشانہ بنانا چاہتے تھے۔کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیراعلی بلوچستان نے بتایا کہ دہشتگردوں نے چودہ اگست پر ان بچوں کو نشانہ بنانا تھا جو جشن آزادی منارہے تھے، سکیورٹی فورسز نے یوم آزادی پر تباہی کے بڑے منصوبے کو ناکام بنایا، اس سے پہلے ریلوے سٹیشن پر جو خودکش حملہ ہوا اس میں 32قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا تھا، یہ لیکچرار خودکش بمبار کو موٹر سائیکل سوار کو خود ریلوے سٹیشن چھوڑ کر آیا۔انہوں نے کہا کہ میں بہت سالوں سے کہہ رہا ہوں منظم انداز میں پاکستان کو توڑنے کی سازش کی جارہی ہے، ہم کب تک کنفیوژن کا شکار رہیں گے، ہمیں اپنی سوسائٹی کو اس کنفیوژن سے نکالنا ہے، ہم نہیں چاہتے کہ کسی کا گناہ کسی اورکو ملے۔انہوں نے کہا کہ یہ لوگ خودکش حملہ آور تیار کرتے ہیں اورپہاڑوں پر بھی بھیجتے ہیں، شک کی بنیاد پر گرفتار فرد کو فورتھ شیڈول میں ڈالا جاتا ہے، ہم نے دو سے ڈھائی ہزار ریاست کے ملازمین کی تحقیقات کی ہیں۔وزیراعلی بلوچستان نے دو ٹوک کہا کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ 2ہزار لوگ 25کروڑ کا ملک توڑ دیں، لوگ کہتے ہیں بلوچستان میں 70سال سے طاقت کا استعمال ہورہا ہے، بتائیں طاقت کا استعمال کہاں ہوا ہے؟ گرفتار ہونے والا پروفیسر کہاں سے محروم ہے؟ مالاکنڈ اوروزیرستان پورے کا پورا خالی کرایا گیا، ہم بلوچستان کا کوئی علاقہ خالی نہیں کرا رہے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری تحقیقات یہ ثابت کرتی ہیں کہ خواتین کو بلیک میل کرکے دہشتگرد بنایا جارہا ہے، بلوچستان میں مسنگ پرسنز کا نام لے کر پروپیگنڈا کیا جاتا ہے، کیا صرف بلوچستان میں مسنگ پرسن کا مسئلہ ہے؟انہوں نے کہا کہ جس شخص نے بات کرنی ہے ہمارے دروازے کھلے ہیں مذاکرات کرنا چاہتے ہیں تو اس سے خوبصورت بات کیا ہوسکتی ہے، کوئی مذاکرات نہیں کرنا چاہتا تو اس کو لوگوں کو مارنے کی بالکل اجازت نہیں دی جاسکتی۔انہوں نے واضح کیا کہ ریاست چاہے تو ایک مارٹرگولہ پھینکے 50دہشتگرد وں کے لوگ مارے جائیں اور سویلین بھی شہید ہوں، ہم دہشتگرد نہیں، ہم ریاست ہیں، ہم ذمہ دار ریاست کا کرداراداکررہے ہیں، دہشت گردوں کو ہم نے علیحدہ کردیا ہے، ہمیں مظلوم کے ساتھ کھڑا ہونا ہے۔بلوچستان میں محرومی کے نام پر پھیلائے جانے والے پروپیگنڈے کو سازش قرار دیتے ہوئے وزیراعلی نے عوام سے کہا کہ وہ محتاط رہیں اور گمراہ عناصر کی حمایت نہ کریں۔ والدین کو ہدایت کی گئی کہ اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھیں۔
پریس کانفرنس کے دوران ہی بیوٹم یونیورسٹی کے لیکچرر ڈاکٹر عثمان قاضی نے اعتراف کیا کہ وہ دہشتگردانہ کارروائیوں کے لیے سہولت کاری کرتا رہا، ٹیلی گرام کے ذریعے اہداف دیے جاتے اور ہتھیار فراہم کیے جاتے تھے، لیکچرار نے کہا کہ اس نے ملک سے غداری کی ہے، لیکچرار 18 ویں گریڈ میں تعینات ہے، اس کی اہلیہ سرکاری ملازم ہیں۔وزیراعلی بلوچستان نے بتایا کہ تحقیقات جاری ہیں اور مزید پروپیگنڈا ٹولز اور دہشتگرد رابطے سامنے آئیں گے، بلوچستان میں منظم انداز میں پاکستان کے خلاف سازش کی جاتی ہے اور قومی دھارے میں شامل سیاسی جماعتوں میں بھی ابہام پیدا کیا جاتا ہے۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ بی ایل اے اور مجید بریگیڈ معصوم افراد کو برین واش کرکے خودکش حملہ آور بناتے ہیں، قاضی عثمان خود مجید بریگیڈ کا لیڈر تھا اور اس نے سرکاری وظیفے پر پاکستان سٹڈیز میں پی ایچ ڈی بھی کر رکھی ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ دہشت گرد معصوم بچوں اور مسافروں کو نشانہ بنا رہے ہیں اور اس کے خلاف حکمت عملی اب مختلف ہوگی، گمراہ کن عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا تاہم اجتماعی سزا کے حق میں نہیں ہیں تاکہ قانون کی بالادستی اور انصاف کو یقینی بنایا جا سکے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی