امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ غربت میں اضافہ ثابت کرتا ہے بینظیر انکم سپورٹ جیسے پروگرام ناکام ہو چکے ہیں، تنخواہ دار طبقے نے گزشتہ سال 499 ارب روپے کا ٹیکس ادا کیا، مگر اس طبقے کو اب بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے، تنخواہ دار طبقے پر مزید بوجھ نہ ڈالا جائے۔ان خیالات کااظہار انہوں نے منصورہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا ۔اس موقع پر جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل امیر العظیم اور نائب امیر لیاقت بلوچ بھی موجود تھے۔ حافظ نعیم الرحمن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں غربت خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے اور عالمی معیار کے مطابق 11 کروڑ سے زائد پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔انہوں نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ پروگرام غریبوں کی فلاح کے بجائے کرپشن، سیاسی مقاصد اور ووٹ بینک کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ان پروگرامز پر خرچ ہونے والے 700 ارب روپے آئی ٹی ایجوکیشن پر لگائے جاتے تو پاکستان کی معیشت کو اربوں ڈالر کا فائدہ ہوتا۔حافظ نعیم نے مطالبہ کیا کہ ایک لاکھ 25 ہزار روپے تک تنخواہ لینے والوں پر ٹیکس ختم کیا جائے، کیونکہ 499 ارب روپے کا بوجھ صرف تنخواہ دار طبقے پر ڈال دیا گیا ہے، جب کہ جاگیردار طبقہ ایک روپیہ بھی ٹیکس نہیں دیتا۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ 111 سرکاری محکمے ٹیکس سے مستثنی ہیں، جن میں فوجی فائونڈیشن اور ضیا اسپتال جیسے ادارے بھی شامل ہیں۔
انہوں نے حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ تعلیم، صحت اور روزگار کی فراہمی کے بجائے صرف ٹیکس بڑھانے میں مصروف ہے۔ تعلیمی ایمرجنسی کے دعوے کیے جا رہے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ آج بھی 2 کروڑ 92 لاکھ بچے اسکول سے باہر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گھوسٹ اسکولوں میں کرپشن کا بازار گرم ہے اور اگر تعلیمی شعبے کو ترجیح دی جاتی تو ملک کی حالت مختلف ہوتی۔امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہیں مگر تنخواہوں اور مراعات میں 6گنا اضافہ ایک ساتھ کر لیتے ہیں۔ انہوں نے یوٹیلٹی بلز، پیٹرول لیوی اور سولر سسٹمز پر عائد ٹیکسز کو عوام دشمن قرار دیا اور کہا کہ یہ سب اقدامات غریب اور مڈل کلاس کو مزید پستی میں دھکیل رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ملک میں گروتھ ریٹ 0.45 فیصد پر آ گیا ہے جو حکومتی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کسانوں، مزدوروں اور متوسط طبقے کو یکسر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ ایف بی آر کی کرپشن، قرضوں پر سود اور مہنگائی نے عوام کا جینا محال کر دیا ہے۔ ہم پر 76 ہزار روپے فی کس قرض ہے، اور 11 ہزار ارب میں سے 5 ہزار ارب روپے صرف سود کی ادائیگی میں جا رہے ہیں۔حافظ نعیم الرحمن نے مطالبہ کیا کہ سود کی شرح آدھی کی جائے، ایف بی آر میں اصلاحات لائی جائیں اور اگر بجلی و گیس کی قیمتیں کم کرنی ہیں تو ان تمام مدات میں دیانت داری سے تبدیلی لانا ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی عوامی مسائل کے حل کے لیے جدوجہد جاری رکھے گی اور عوام کو اس نظام کے خلاف متحد کرے گی جو صرف اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ حافظ نعیم الرحمان کا کہنا تھا کہ سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کی تنخواہوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے ۔ موجودہ حکومت اور اپوزیشن مل کر صرف اپنی تنخواہیں اور مراعات بڑھاتے ہیں، جبکہ غریب اور مڈل کلاس کی زندگی کو اجیرن بنا دیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ موجودہ بجٹ میں تعلیم، صحت اور امن و امان جیسے شعبوں کو نظرانداز کر دیا گیا ہے، جبکہ ہر وقت "ٹیکس، ٹیکس" کی گردان کی جا رہی ہے، سولر سسٹمز پر لگایا گیا ٹیکس واپس لیا جائے اور عوام کو ریلیف دیا جائے۔ان کا کہنا تھا کہ موجودہ شرح نمو محض 0.45 فیصد پر آ گئی ہے جو کسان دشمن پالیسیوں کا نتیجہ ہے، کپاس کی کاشت میں 30 فیصد کمی واقع ہوئی ہے، جو زراعت کے شعبے کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے۔حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ بجلی کی قیمتیں کم کرنے کا وعدہ اب تک وفا نہیں ہوا، جبکہ آئی پی پیز پر بات کرنے کے باوجود اس پر کوئی پیشرفت نہیں کی گئی۔انہوں نے خبردار کیا کہ حکومت ڈیڑھ ہزار ارب روپے کے محصولات میں کمی کا اعتراف کر چکی ہے اور پانچ سو ارب روپے کا مزید ٹیکس لگانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے، اگر سود کو آدھا کر دیا جائے اور ایف بی آر کی کرپشن پر قابو پایا جائے تو نہ صرف ٹیکس کا نظام بہتر ہو سکتا ہے بلکہ عوام کو ریلیف بھی دیا جا سکتا ہے
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی