اقوام متحدہ کے ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ ایک جانب اسرائیل امدادی سرگرمیوں کو روک کر غزہ میں فلسطینیوں کو قحط کے حوالے کرنے کی سازش میں مصروف ہے تو دوسری جانب اس نے غزہ میں روایتی طور پر موجود ماہی گیری نظام کو سات اکتوبر سے مسلسل کوششیں کر کے 80فیصد تباہ کر دیا ہے،اقوام متحدہ کے ان ماہرین سے پہلے بہت سے اداروں کے سربراہان خبردار کر چکے ہیں کہ اسرائیل غزہ میں بمباری اور گولہ بارود کے اندھے استعمال کے ساتھ ساتھ بھوک کو بھی ایک ہتھیار بنا کر فلسطینیوں کے خلاف استعمال کر رہا ہے،امدادی اداروں سے متعلقہ حکام بھی مسلسل کہہ رہے ہیں کہ اسرائیل نے اپنی حماس کے خلاف جنگ میں پچھلے پانچ ماہ کے دوران ایک منظم انداز سے بھوک اور قحط لانے کے لیے کارروائیاں کی ہیں۔ حتی کے پانی کی فراہمی کے انفراسٹرکچر کو تباہ کرنے کے علاوہ بیکریوں کو بھی تباہ کر دیا ہے۔ غزہ کا مسلسل محاصرہ بھی اس سلسلے کی ایک ہم کڑی ہے کہ غزہ میں خوراک نہ جا سکے۔اقوام متحدہ کے خوراک سے متعلق خصوصی نمائندے میخائیل فاخری نے بھی یو این او کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں خطاب کے دوران کہا ہے 'اسرائیلی حکمت عملی کا نتیجہ ہے کہ 23لاکھ بے گھر ہو چکے فلسطینیوں کے لیے نہ صرف یہ کہ عام اشیا فراہم کرنا غیر ممکن ہو گیا ہے بلکہ انہیں پانی ، خوراک اور ادویہ کی ترسیل بھی رکی ہوئی ہے،انہوں نے کہا کہ وہ فلسطینیوں کے خلاف بھوک ، افلاس اور قحط کی فضا پیدا کر رہا اور کافی حد تک اس میں کامیاب ہو چکا ہے۔ اسی سبب اس نے ماہی گیری کے نظام کو بھی فوجی طریقے سے تباہ کر دیا ہے۔ پچھلے ہفتے سے امدادی ترسیل پر پابندیاں اور رکاوٹیں مزید بڑھا چکا ہے،فاخری ایک لبنانی نژادکینڈین شہری ہیں اور قانون کے پروفیسر ہیں ، وہ غزہ کو دیکھنے والے درجنوں ماہرین میں سے ایک ہیں جو انسانی حقوق کی صورت حال کو مانیٹر کر رہے ہیں۔ انہیں اقوام متحدہ نے اختیار دے رکھا ہے کہ وہ انسانی حقوق کے امور پر اقوام متحدہ کو اپنی سفارش کر سکتے ہیں اور اپنی رپورٹ دے سکتے ہیں۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی