اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کا جیل ٹرائل کرنے کی وجوہات حقیقی نوعیت کی ہیں، انہیں سکیورٹی خدشات درپیش ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی کا جیل ٹرائل کرنے کا فیصلہ بظاہر بدنیتی پر مبنی نہیں،جیل ٹرائل کے حوالے سے تحفظات ہونے پر ٹرائل کورٹ سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ جمعرات کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس کا ٹرائل جیل میں کرنے کے خلاف درخواست نمٹانے کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے جیل ٹرائل کے خلاف درخواست پر فیصلہ جاری کیا۔ تحریری فیصلے میں عدالت نے کہا کہ 27 جون 2023 کو انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ٹرائل کے لیے مقرر کیا، سیکشن 13 کے تحت مجسٹریٹ یا بہتر درجے کی عدالت آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا مقدمہ سن سکتی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ سیشن جج کو بھی آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمات کے ٹرائل کی ذمے داری دی جا سکتی ہے، اے ٹی سی جج کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت کی ذمے داریاں دینا سیکشن 13 کے منافی نہیں۔ تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کا جیل ٹرائل کرنے کی وجوہات حقیقی نوعیت کی ہیں، سابق وزیرِ اعظم سے متعلق سیکیورٹی خدشات درپیش ہیں، ان کے جیل ٹرائل کرنے کے فیصلے میں بظاہر بد نیتی نہیں۔ عدالت نے کہا کہ درخواست گزار کے اٹھائے گئے قانونی نکات جیل ٹرائل نوٹیفکیشنز کالعدم کرنے کے لیے ناکافی ہیں، درخواست گزار نے اس عدالت کو خود کو درپیش سیکیورٹی مسائل سے متعلق آگاہ کیا، چیئرمین پی ٹی آئی کی جیل ٹرائل کے خلاف درخواست میرٹ پر نہ ہونے پر نمٹائی جاتی ہے۔ تحریری فیصلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ جیل ٹرائل سے متعلق تحفظات ہونے پر ٹرائل کورٹ سے رجوع کیا جا سکتا ہے، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی اپنی جیل ہوتی تو درخواست میں کی گئی بہت سی باتیں نہ کی جاتیں، وزارتِ داخلہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کا جیل پراجیکٹ جلد از جلد شروع کرے۔ واضح رہے کہ سائفر کیس کا ٹرائل جیل میں کرنے کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی نے درخواست دائر کی تھی۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی