i پاکستان

ملک بھر میں مون سون بارشوں کی تباہ کاریاں جاری، 24 گھنٹے میں مزید 5 افراد جاں بحق، 10 زخمی، ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 221 ہوگئی،این ڈی ایم اےتازترین

July 22, 2025

ملک میں حالیہ مون سون بارشوں کا سلسلہ جاری ہے جس کے دوران گزشتہ 24 گھنٹوں میں مختلف واقعاتم یں مزید 5 افراد جاں بحق ہوگئے جس کے بعد ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 221 ہوگئی۔نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کی تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران بارشوں کے باعث 5 افراد جاں بحق اور 10 زخمی ہوئے، جاں بحق ہونے والوں میں 2 مرد اور 3 بچے شامل ہیں۔رپورٹ کے مطابق طوفانی بارشوں کے باعث اب تک مختلف حادثات میں 221 افراد ہلاک ہوگئے جبکہ ملک بھر میں 804 سے زائد مکانات مکمل طور پر تباہ ہوئے ہیں۔این ڈی ایم اے کے مطابق طوفانی بارشوں سے پنجاب سب سے زیادہ متاثر ہونے والا صوبہ ہے جہاں بارشوں کے نتیجے میں سب سے زیادہ 135 افراد جان بحق ہوئے، جبکہ 470 افراد زخمی ہوگئے، بارشوں سے 168 مکانات جزوی طور پر جبکہ 24 مکانات مکمل طور پر تباہ ہوئے۔خیبرپختونخوا میں بارشوں کی وجہ سے 40 افراد جان کی بازی ہار گئے، جبکہ 69 افراد زخمی ہوئے، صوبے میں 142 مکانات جزوی طور پر اور 78 مکانات مکمل طور پر منہدم ہوئے۔سندھ میں بارشوں کے نتیجے میں 22 افراد جان بحق ہوئے اور 40 افراد زخمی ہوئے، صوبے میں 54 مکانات جزوی طور پر اور 33 مکانات مکمل طور پر تباہ ہوگئے، بلوچستان میں بھی بارشوں کی شدت نے 16 افراد کی جان لے لی، جبکہ 4 افراد زخمی ہوئے، یہاں 56 مکانات جزوی طور پر اور 8 مکانات مکمل طور پر تباہ ہو گئے۔

گلگت بلتستان میں حالیہ بارشوں سے 3 افراد زخمی ہوئے، جبکہ یہاں 71 مکانات جزوی طور پر اور 66 مکانات مکمل طور پر منہدم ہوگئے۔آزاد کشمیر میں بارشوں کے سبب 1 شخص کی جان گئی اور 6 افراد زخمی ہوئے، یہاں 75 مکانات جزوی طور پر اور 17 مکانات مکمل طور پر تباہ ہوئے۔اسلام آباد میں بھی بارشوں کے نتیجے میں 1 شخص جاں بحق ہوا، جبکہ 35 مکانات جزوی طور پر اور ایک مکان مکمل طور پر منہدم ہوا۔این ڈی ایم اے کی رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران مزید 5 افراد کی جان گئی جس میں 3 بچے بھی شامل ہیں جبکہ 25 مکانات منہدم ہوئے اور 5 مویشی ہلاک ہوئے، اب تک 804 مکانات مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں اور 200 مویشیوں کی اموات ہوئی ہیں۔اس دوران ملک بھر میں بارشوں سے تباہی کا سلسلہ جاری ہے ۔ مری میں گزشتہ رات سے شروع ہونے والی موسلادھاربارش کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہے جس کے نتیجے میں کئی درخت گرگئے اور گاڑیاں پھنس گئیں جب کہ راولپنڈی میں بھی شدید بارش سے پانی گھروں میں داخل ہوگیا۔مری کے بوستال روڈ اور ایکسپریس وے کے آوائین کے مقام پر پر لینڈسلائیڈنگ کے واقعات دیکھنے میں آئے جس دوران 3افراد پتھر لگنے سے معمولی زخمی ہوگئے جب کہ امدادی ٹیموں نے گاڑیوں اور 11 افراد کو بحفاظت نکال لیا۔

نمب جھنڈا گلی گائوں میں لینڈسلائیڈنگ کے نتیجے میں 2 گھر زد میں آگئے تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ مری میں وقفے وقفے سے جاری موسلادھار بارشوں اور تیز ہوائوں کے باعث کئی درخت گرگئے جس کے نتیجے میں متعدد گاڑیاں پھنس گئی ہیں، بارشوں کے نتیجے میں بھوربن اور ملحقہ علاقوں میں گزشتہ 12 گھنٹے سے بجلی کی فراہمی معطل ہے۔ڈپٹی کمشنر نے شہریوں کو مری کے غیرضروری سفر سے گریز کی ہدایت کی اور کہا کہ ندی نالوں اور ڈیمز میں نہانے سے مکمل سے گریز کریں۔ادھر راولپنڈی اسلام آباد میں تیز بارش سے نشیبی علاقے زیر آب آگئے جہاں راولپنڈی کی نجی ہائوسنگ سوسائٹی کے فیز ایٹ اور ملحقہ دیہات میں بھی پانی داخل ہوگیا۔شدید بارش سے باغ راجگان، کھڑکن اور سوہاوہ کے گائوں شدید متاثر ہوئے ہیں۔ چکوال میں ممکنہ طوفانی بارش کے پیش نظر ضلعی انتظامیہ نے الرٹ جاری کردیا جس کے تحت سرکاری اسکولوں کو عارضی پناہ گاہوں میں تبدیل کردیا گیا ہے ۔ خیبر پختونخوا کے شہر ہری پور کی تحصیل غازی میں سیلابی ریلے میں بہنے والے سات بچوں کو بروقت ریسکیو کر لیا گیا، ریسکیو حکام کا کہنا ہے کہ بچے اہل خانہ کے ساتھ صوابی سے تربیلہ ڈیم کی سیر کے لیے آئے تھے۔

پانی کم ہونے پر سات بچے غازی بیراج میں کھیل رہے تھے، کہ اچانک سیلابی ریلا آ گیا، ریلا آنے پر تیز بہا کے باعث تمام بچے ڈوب گئے، تاہم بروقت اطلاع پر ریسکیو نے فوری کارروائی کر کے ساتوں بچوں کو بہ حفاظت نکال لیا جبکہ سوات کے سیاحتی مقام مالم جبہ میں دو بچے سیلابی ریلے میں بہہ گئے، جن میں سے ایک کی لاش مل گئی ہے اور دوسرا لاپتا ہے، خاتون بچوں کے ساتھ ندی پار کر رہی تھی کہ اچانک ریلا آ گیا۔ادھر مدین میں لینڈ سلائیڈنگ کا واقعہ پیش آیا ہے، جس میں ایک گھر تودے تلے آ گیا، جس میں 3 بچے دب کر جاں بحق ہو گئے اور ان کی ماں زخمی ہو گئی۔ جب کہ خوازہ خیلہ، مینگورہ سمیت مختلف علاقوں میں بارش سے ندی نالوں میں طغیانی آئی ہوئی ہے، اور بونیر کے مختلف علاقوں میں 3 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ادھر بونیر، مالاکنڈ اور لوئر دیر میں بھی موسلادھار بارش ریکارڈ کی گئی، پیربابا خوڑ میں بارشوں سے سیلابی صورتحال ہوگئی جب کہ پیربابا پولیس اسٹیشن ، سواڑی 132 کے وی گرڈ اسٹیشن پر گلیوں اور دکانوں میں پانی داخل ہوگیا۔ گوکند میں آسمانی بجلی گرنے سے 2خواتین جاں بحق ہوگئیں، سوات کے علاقے مدین میں بارش سے مکان کی چھت گرگئی جس کے نتیجے میں 3 بچے جاں بحق ہوگئے، سوات میں ہی برساتی نالے میں ڈوب کر 2بچے جاں بحق ہوگئے۔ دوسری جانب پنجاب ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی ( پی ڈی ایم اے) نے پنجاب کے مختلف علاقوں میں موسلادھار بارشوں کے پیش نظر الرٹ جاری کر دیا۔پی ڈی ایم اے کے ترجمان نے بتایا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران راولپنڈی میں 54 ملی میٹر، مری میں 42 ملی میٹر اور نارووال میں 62 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی

اسی طرح جہلم، سیالکوٹ، منگلا، اٹک، گجرات اور رحیم یار خان میں بھی بارشوں کا سلسلہ جاری رہا۔ترجمان کے مطابق صوبے بھر میں بارشوں کی شدت کے پیش نظر تمام ضلعی ایمرجنسی آپریشن سینٹرز اور صوبائی کنٹرول روم کو مکمل طور پر الرٹ کر دیا گیا ہے۔راولپنڈی، فیصل آباد، گوجرانوالہ، سرگودھا، ملتان، ساہیوال، بہاولپور، جہلم، اٹک، چکوال، مری، گلیات، میانوالی، نارووال، گجرات، سیالکوٹ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، منڈی بہاالدین اور ڈی جی خان میں آج مزید تیز بارشوں کی پیش گوئی کی گئی ہے۔پی ڈی ایم اے نے مون سون بارشوں کے چوتھے سلسلے کو 25 جولائی تک جاری رہنے کی توقع ظاہر کی ہے اور ساتھ ہی خطرات کی نشاندہی کی ہے، ان میں نشیبی علاقوں اور ندی نالوں میں طغیانی اور مری کے پہاڑی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ شامل ہے۔ترجمان پی ڈی ایم اے نے عوام سے درخواست کی ہے کہ وہ احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور بارشوں کے دوران غیر ضروری سفر سے گریز کریں، خصوصا پہاڑی علاقوں میں جہاں لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ بڑھ چکا ہے۔ ادھر بابوسر ٹاپ پر کلائوڈ برسٹ سے ہونے والی تباہی کے بعد امدادی کارروائیواں جاری ہیں ۔ ضلعی انتظامیہ کے مطابق چلاس کے علاقے شاہراہ تھک بابوسر میں سیلابی ریلوں میں سیاحوں کی 10سے15 گاڑیاں بہہ گئیں،جن میں کوسٹرز بھی شامل ہی ۔ریسکیو آپریشن میں 3 نعشیں نکال لی گئی ہیں اور 4 سیاحوں کو بچا لیا گیا ہے جبکہ 30 سے 40 سیاح لاپتہ ہیں۔

مختلف مقامات پر پھنسے ہوئے درجنوں سیاحوں کو محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا۔ڈپٹی کمشنر دیامر اور ایس پی دیامر نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور امدادی کارروائیوں کا جائزہ لیا، حکام کے مطابق وہ متاثرہ مقام کے وسط تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے، تاہم پتھروں کے بڑے ڈھیر اور سخت زمینی حالات کے باعث آگے کا علاقہ پیدل بھی ناقابلِ رسائی ہے۔ضلعی انتظامیہ نے چلاس میں سیاحوں کیلئے عارضی رہائش کا بندوبست کیا، جہاں گرلز ڈگری کالج اور پولیس کی جانب سے فراہم کردہ ٹرانسپورٹ کے ذریعے پھنسے ہوئے افراد کو مقامی ہوٹلوں میں منتقل کیا گیا۔ ڈپٹی کمشنر نے مزید بتایا کہ قدرتی آفت سے بجلی اور فائبر آپٹک لائن متاثر ہوئی جس کے باعث رابطوں میں دشواری کا سامناہے، سیلاب متاثرہ علاقے میں مشینری پہنچا رہے ہیں،کچھ علاقوں میں مشینری پہنچ چکی ہے، ناران سے بھی بابو سر روڈ کو کھولنے کی کوشش کرینگے۔ ڈی سی کا کہنا تھا کہ سیلاب متاثرہ علاقے میں مشینری پہنچا رہے ہیں،کچھ علاقوں میں مشینری پہنچ چکی ہے، زخمیوں کو ایمبولینسز کے ذریعے آر ایچ کیو منتقل کرچکے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ قدرتی آفات کے ردعمل میں جو کچھ کرسکتے ہیں وہ کررہے ہیں ۔، ابھی یہ کنفرم کرنا باقی ہے کہ ملنے والی ڈیڈ باڈیز سیاحوں کی ہیں یا کہ مقامی افراد کی، ابھی ہم متاثرہ افراد کو امدادی سامان کھانا اور پانی وغیرہ فراہم کریں گے۔

اس حوالے سے ترجمان گلگت بلتستان حکومت فیض اللہ فراق نے بتایا کہ شاہراہ بابوسر میں صبح سرچ آپریشن کا آغاز کر دیا گیا ہے اور لاپتا افراد کی تلاش جاری ہے۔ترجمان نے کہا کہ سیلاب سے گرلز اسکول، 2 ہوٹل، پولیس چوکی، پولیس شیلٹر اور شاہراہ بابوسر سے متصل 50 سے زائد مکانات مکمل تباہ ہوئے، 8 کلومیٹر سڑک شدید متاثرہ اور 15مقامات پر روڈ بلاک ہے جب کہ شاہراہ بابوسر پر 4 رابطہ پل بھی تباہ ہوئے ہیں۔ ترجمان کے مطابق سیکڑوں پھنسے سیاحوں کو چلاس شہر منتقل کرنے کا عمل جاری ہے اور اب تک 200 سے زائد سیاحوں کو ریسکیو کر کے چلاس پہنچا دیا گیا ہے، بابوسر میں مواصلاتی نظام نہ ہونے سے سیاحوں کا رابطہ گھروں سے منقطع ہے تاہم چلاس کے ہوٹلز اور گیسٹ ہائوسز مسافروں اور سیاحوں کیلئے مفت کھول دئیے ہیں۔ اس دوران شاہراہ بابوسر، شاہراہ قراقرم پر پھنسے سیاحوں اور مسافروں کیلئے پاک فوج کی جانب سے بھی ریسکیو آپریشن جاری ہے جس دوران سیاحوں اور مسافروں کو ہیلی کاپٹرز کے ذریعے محفوظ مقامات پر منتقل کردیا گیا ہے۔پاک فوج، جی بی اسکاوٹس ٹیمیں متاثرہ افراد کو اشیاخوردونوش فراہم کررہی ہیں، زخمیوں کو طبی امداد بھی دی جا رہی ہے ، مشینری اور افرادی قوت سڑکوں کی بحالی پر کام کررہے ہیں اور بابوسر اور قراقرم ہائی وے پر رکاوٹیں دور کی جارہی ہیں جب کہ گم شدہ افراد کی تلاش کے لیے سرچ اینڈ ریسکیو ٹیمیں روانہ کردی گئی ہیں۔

آرمی کے پائلٹس اور انجینئرنگ ٹیموں کی معاونت سے ریسکیو آپریشن کیا جارہا ہے، سکردو سے سدپارہ مانٹینئرنگ سکول تک لینڈ سلائیڈنگ کا علاقہ کلیئر قرار دے دیا گیا ہے۔پاک فوج متاثرہ مقامات پر سیاحوں کو خوراک اور دیگر ضروری سامان بھی فراہم کررہی ہے، فوج کی جانب سے 150 تیار پکوان کے پیکٹس ہیلی کاپٹر سے روانہ کیے گئے ہیں۔ادھر شاہراہ بابوسرپر پھنسے سیاحوں اور مسافروں کو پاک فوج نے ہیلی کاپٹرز کے ذریعے محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا، اب تک ہیلی کاپٹر کی 15 سورٹیز کے ذریعے سیاحوں اور مسافروں کو محفوظ مقام پر منتقل کیا گیا ہے۔پاک فوج اور گلگت بلتستان سکاوٹس کی ٹیموں کی جانب سے متاثرہ افراد تک اشیا خوردونوش فراہم کی جا رہی ہیں، زخمیوں کو فوری طبی امداد بھی فراہم کی جا رہی ہے، سڑکوں کی بحالی کیلئے مشینری اور افرادی قوت مسلسل کام میں مصروف ہے۔ بابوسر اور قراقرم ہائی وے پر رکاوٹیں دور کی جا رہی ہیں، رات بھر سے ملبہ ہٹانے اور راستے کھولنے کا عمل جاری ہے، گم شدہ افراد کی تلاش کیلئے سرچ اینڈ ریسکیو کی ٹیمیں روانہ کر دی گئی ہیں، مشکل پہاڑی علاقوں میں بھی گم شدہ افراد کی تلاش جاری ہے۔

پاک فوج اور ریسکیو اہلکاروں کی پیشہ ورانہ کارکردگی اور فوری ردعمل نے بڑی انسانی جانیں بچا لی ہیں، متعلقہ اداروں کی جانب سے موجودہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے مربوط اقدامات کیے جا رہے ہیں، عوام سے اپیل ہے کہ متاثرہ علاقوں کا سفر کرنے سے گریز کریں۔سیاحتی مقام بابوسر ٹاپ پر جل سے دیونگ کے درمیان بادل پھٹنے کے نتیجے میں شدید لینڈ سلائیڈنگ اور سیلاب نے 7 سے 8 کلومیٹر کے علاقے کو شدید متاثر کیا، قدرتی آفت کے باعث سڑک پر 15 بڑے مقامات پر رکاوٹیں پیدا ہو گئیں، جس سے ٹریفک مکمل طور پر معطل ہوگئی۔ترجمان این ڈی ایم اے کے مطابق بابوسر ٹاپ روڈ مکمل طور پر بند ہے جبکہ قراقرم ہائی وے کے لال پہاڑی اور تتھا پانی کے مقامات پر 10 سے 15 گاڑیاں نالوں اور لینڈ سلائیڈنگ والے علاقوں میں پھنسی ہوئی ہیں، تھک نالہ میں 4 افراد بہہ گئے جن میں سے 2 کی نعشیں اور 2 کو بحفاظت نکال لیا گیا، جبکہ لاپتہ افراد کی تلاش کیلئے ریسکیو آپریشن جاری ہے، پاکستان فوج بھی آپریشن میں حصہ لے رہی ہے۔

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی