نگراں وزیرِ اعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی وطن واپسی کے معاملے میں حکومت چاہتی ہے کہ قانون اپنا راستہ اختیار کرے اور سابق وزیر اعظم کی ممکنہ گرفتاری اور جیل بھیجنے کے بارے میں حکومت نے وزارت قانون سے رائے بھی طلب کی ہے، پاکستان کی موجودہ صورتحال میں لگ رہا ہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا مقابلہ فوج سے نہیں بلکہ ریاست سے ہے، لندن میںبرطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو میں نگران وزیراعظم نے کہا کہ انھوں نے وزارت قانون سے اس بارے میں رائے لی ہے کہ جب نواز شریف واپس آئیں گے تو قانون کے مطابق نگراں حکومت کا انتظامی رویہ کیا ہونا چاہیے، وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ میں نے عمران خان کی سزا کے بارے میں جو اشارتا بات کی اس کا مقصد یہ تھا کہ عدالتی نظام میں جتنے بھی مواقع ہیں اگر انھیں استعمال کرنے کے بعد بھی قوانین کے تحت انھیں الیکشن سے روکا گیا، تو یہ ہمارے مینڈیٹ سے باہر ہو گا کہ ہم انھیں کوئی ریلیف دے سکیں۔ قانون اپنا راستہ خود اختیار کرے گا،نگراں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اگر عدالتوں سے کوئی ریلیف نہ ملا تو پھر بدقسمتی سے عمران خان کو ان نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا،نوارالحق کاکڑ نے کہا کہ نواز شریف کے خلاف جو فیصلہ آیا تھا وہ ایک فردِ واحد کے خلاف فیصلہ تھا۔ جس پر کچھ نے شادیانے بجائے لیکن اسی سیاسی شخص کی جماعت نے اگلے انتخابات میں 90کے قریب نشستیں بھی حاصل کی تھیں،انتخابات میں حکومت کی غیرجانبداری کو یقینی بنانے کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں نگران وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ قطعا کوئی سختی نہیں برتی جائے گی، ان لوگوں کے ساتھ قانون کے مطابق ضرور نمٹا جائے گا جو منفی سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے ہیں اور وہ مخصوص افراد ہیں جو پچیس کروڑ کی آبادی میں پندرہ سو، دو ہزار بنتے ہوں گے، ان کو پاکستان تحریک انصاف سے جوڑنا کوئی منصفانہ تجزیہ نہیں ہو گا،انھوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ تحریک انصاف کے خلاف ہونے والی کارروائی کا جنرل ضیا کے زمانے میں پیپلز پارٹی کے خلاف ہونے والی کارروائی یا پرویزمشرف کے زمانے میں مسلم لیگ کے خلاف ہونے والی کارروائی سے موازنہ کرنا ایک بیہودہ تجزیہ اور غلط بات ہو گی۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی