سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریما رکس دیئے کہ فرد واحد آ کر آئینی ترمیم کرے تو وہ ٹھیک ہے، پارلیمنٹ کچھ اچھا کرنا چاہتی ہے تواس کو کچلنا کیوں چاہتے ہیں؟ ، ہم بھی مانتے ہیں کہ صوبائی اسمبلیوں کو ایسی قانون سازی کا اختیارنہیں، کوئی مریض مر رہا ہو اورمیڈیکل کی سمجھ رکھنے والا اسے مرنے دے کہ وہ ڈاکٹرنہیں ہے؟، پارلیمنٹ نے اچھی نیت سے قانون سازی کی ، جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ کیلئے دروازہ کھول دیا تو وہ سپریم کورٹ کے ہر معاملے میں مداخلت کرے گی، ایک بار دروازہ کھل گیا تو اس کا کوئی سِرا نہیں ہو گا، قانون سازی اچھی یا بری بھی ہو سکتی ہے ہمیں اختیار کو دیکھنا ہو گا ،جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ آپ نے ابھی تک اپنے دلائل سے پہلی رکاوٹ ہی عبور نہیں کی، آپ بتا نہیں سکے قانون سے کون سا بنیادی حق متاثر ہوا، سپریم کورٹ انصاف تک رسائی نہ دے رہی ہو تو کیا پارلیمنٹ قانون سازی نہیں کرسکتی؟۔ پیر کو چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں فل کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیئے کہ آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ نہ ختم ہونے والا کیس ہے تو ایسا نہیں، یہ اس کیس کا آخری دن ہے۔ صدر سپریم کورٹ بار نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کے رولز صرف سپریم کورٹ بنا سکتی ہے، آئین میں درج سبجیکٹ ٹو لا کا یہ مطلب نہیں پارلیمنٹ قانون بنا سکتی ہے، اس معاملے پر الگ قانون سازی اختیارات سے تجاوز ہوگا، آئین پارلیمنٹ کو اس معاملے پر قانون سازی کی اجازت نہیں دیتا۔ جسٹس اعجاز الحسن نے استفسار کیا کہ کیا آئینی اختیارات سے سپریم کورٹ رولز بنا لے تو بعد میں کوئی قانون سازی بدل سکتی ہے؟ ، جس پر عابد زبیری نے جواب دیا کہ ان کے پاس قانون سازی کا اختیار نہیں رہ جاتا۔ جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں نئی قانون سازی نہیں ہوسکتی،آپ کے مطابق سپریم کورٹ پہلے سے موجود قانون کے مطابق ہی رولز بنا سکتی ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسی نے استفسار کیا کہ ہم سبجیکٹ ٹو لا کا لفظ کاٹ دیں فرق کیا پڑے گا ؟ ، عابد زبیری نے بتایا کہ فرق نہیں پڑے گا جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ فرق نہیں پڑے گا نا، تھینک یو، اگلے پوائنٹ پر چلیں۔ صدر سپریم کورٹ بار نے کہا کہ نیو جرسی عدالت کے فیصلے کا حوالہ دینا چاہتا ہوں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کم از کم امریکی سپریم کورٹ کے فیصلے کا تو حوالہ دیں، نیو جرسی کورٹ فیصلے کی نظیر دے رہے ہیں، ہمارا لیول اتنا نہ گرائیں، آپ جو پڑھ رہے ہیں وہ تو فیصلہ بھی نہیں، وکلا کے دلائل ہیں۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے اضافی کاغذات جمع کرانے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے کہا تھا یہ پہلے دائر کردینا اب کاغذ آ رہے ہیں، کیا ایسے نظام عدل چلے گا کیا دنیا میں ایسے ہوتا ہے؟، مغرب کی مثالیں آپ دیتے ہیں کیا وہاں یہ ہوتا ہے؟ ، آپ جیسے سینئر وکیل سے ایسی توقع نہیں ہوتی، ہمارا لیول اتنا تو کم نہ کریں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 142 میں بھی قانون سازی کو آئین سے مشروط کیا گیا ہے جس پر وکیل عابد زبیری کا کہنا تھا کہ آئین میں پہلے سے موجود شقوں سے ہی مشروط کیا گیا ہے۔جسٹس جمال مندو خیال نے ریمارکس دیئے کہ ہمیشہ ہوتا یہی ہے پہلے ایکٹ بنتا ہے پھر رولز بنتے ہیں، رولز، آئین و قانون کیخلاف ہوں تو کالعدم ہوجاتے ہیں۔ وکیل عابد زبیری نے کہا کہ نیو جرسی کی عدالت میں کہا گیا قانون سازی کرنے اور رولز بنانیمیں فرق ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آرٹیکل 175 دو کو آرٹیکل 191 کے ساتھ ملا کر پڑھیں، آرٹیکل 175 دو کسی بھی عدالت کے مقدمات کو سننے کا اختیار بتاتا ہے۔ وکیل عابد زبیری نے کہا کہ سپریم کورٹ رولز بنانے کے اختیار سے متعلق آئینی شق کو تنہا نہیں پڑھا جا سکتا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فل کورٹ یہ مقدمہ سن رہی ہے تا کہ وکلا سے کچھ سمجھ اور سیکھ سکیں، آئینی شقوں پر دلائل دیں جبکہ جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیے کہ آئینی شقوں کو ملا کر پڑھنا ہوتا ہے، آئین کے کچھ آرٹیکل اختیارات اور کچھ ان اختیارات کی حدود واضح کرتے ہیں۔ جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ رولز نہیں بنا سکتی نہ ہی رولز بنانے کیلئے قانون سازی کر سکتی ہے، موجودہ قانون کے دائرہ کار میں رہ کر رولز میں ردو بدل کرنے کا اختیار صرف سپریم کورٹ کے پاس ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ خلاف آئین کوئی رولز بنائے تو کوئی تو یاد دلائے گا کہ آئین کی حدود میں رہیں،جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ کوئی بھی ضابطہ آئین سے متصادم ہوگا تو وہ خود کالعدم ہو جائے گا۔ چیف جسٹس قاضی فائزعیسی کا کہنا تھا کہ میں سوال واضح کر دیتا ہوں، جوڈیشل کمیشن اور سپریم جوڈیشل کونسل رولز سے متعلق آئین میں لکھا ہے کہ آئینی باڈیز خود قانون بنائیں گی، سپریم کورٹ کے ضابطوں سے متعلق آرٹیکل 191 میں لکھا ہے کہ قانون سے بھی بن سکتے ہیں، سوال یہ ہے کہ آئین سازوں نے خود آئین کے ساتھ قانون کا آپشن دیا؟۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 191 رولز بنانے کا محض دائرہ اختیار طے کرتا ہے یا پاور دیتا ہے؟ وکیل عابد زبیری نے کہا کہ آرٹیکل 191 سپریم کورٹ کو رولز بنانے کی پاور دیتا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہم یہاں آئین اور قانون سازوں کی نیت دیکھ رہے ہیں، اگر آئین سازوں کی نیت دیکھنی ہے تو آرٹیکل 175 دیکھیں، اگرآئین سازوں نے مکمل اختیار سپریم کورٹ کو دینا ہوتا تو واضح طور پر لکھ دیتے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں سمجھ نہیں آرہی آپ کی اس قانون پر بے چینی ہے کیا، 184/3 کے معاملے پر دنیا ہم پر انگلی اٹھائے اس سے پہلے میں اٹھاتا ہوں، اگر ہم نے غلطی کی تو ہمیں درست کرنی چاہیے، ہم نے غلطی درست نہیں کی تو کیا پارلیمنٹ کر سکتی ہے یا نہیں؟، آپ ایک سیاسی جماعت پی ٹی آئی کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ عابد زبیری نے کہا کہ میں پی ٹی آئی کا وکیل نہیں ہوں، مجھے بطور صدر سپریم کورٹ بار نوٹس ہوا ہے۔ جسٹس مظاہرنقوی نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ رولز پر پارلیمنٹ نے پابندی لگائی ہائیکورٹ اور شرعی عدالت کے ضابطوں پرکیوں نہیں؟، جسٹس اعجازالحسن نے ریمارکس دیے کہ ہائی کورٹس اپنے پریکٹس اینڈ پروسیجر بنانے کے لیے خود با اختیار ہے۔ وکیل عابد زبیری نے کہا کہ اگر آج بھی سپریم کورٹ اپنے رولز خود بنا لے تو کوئی اعتراض نہیں اٹھا سکتا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ آپ نے ابھی تک اپنے دلائل سے پہلی رکاوٹ ہی عبور نہیں کی، آپ بتا نہیں سکے قانون سے کون سا بنیادی حق متاثر ہوا، سپریم کورٹ انصاف تک رسائی نہ دے رہی ہو تو کیا پارلیمنٹ قانون سازی نہیں کرسکتی؟، چیف جسٹس ایسے ہی کیسزاٹھا تے رہیں جبری گمشدگیوں جیسے مقدمات نہ اٹھائیں کیا اس پرقانون سازی بھی نہ ہو؟۔ چیف جسٹس قاضی فائزعیسی نے ریمارکس دیے کہ آپ نے میرے سوال کا جواب بھی نہیں دیا، کیا پاکستان میں آرٹیکل 184/3 کا درست استعمال ہوا یا غلط؟ ، آپ جواب نہیں دے رہے تو لکھ دوں گا آپ نے جواب نہیں دیا۔ عابد زبیری نے کہا کہ میرا جواب ہے کہ درست استعمال بھی ہوا غلط بھی ہوا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پاکستان میں 184 تین کا استعمال کیسے ہوا؟ ، کیا ہیومن رائٹس سیل کا آئین یا سپریم کورٹ رولز میں تذکرہ ہے؟ ، آرٹیکل 184 تھری سے متعلق ماضی کیا رہا؟۔ قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ یا تو کہہ دیتے کہ 184 تین میں ہیومن رائٹس سیل بن سکتا تھا، اس بات پر تو آپ آنکھیں بند کر کے بیٹھ گئے ہیں، آپ یہ توکہہ دیں سپریم کورٹ کے ایک چیف جسٹس نے اگر غلطی کی توپارلیمنٹ اسے درست کرسکتی ہے یا نہیں؟۔ عابد زبیری نے کہا کہ اگر اپیل کا حق دینا ہے تو آئین میں ترمیم کرنا ہو گی، آئین سازوں نے 184/3 میں اپیل کا حق نہیں دیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آج کوئی جج اس آرٹیکل کیتحت کہہ دے فلاں پارٹی پر پابندی ہے تو بات ختم؟، کیا اس پر نظرثانی کے علاوہ کوئی داد رسی ہونی ہی نہیں چاہیے؟، اگر کسی نے معاملے پر آگے آکر مدد کر دی ہے تو اسے کالعدم کردیں؟، آپ نے شروع میں ہی پارلیمنٹ کی نیت پر حملہ کر دیا، میری نظر میں تو پارلیمنٹ کی نیت اچھی تھی۔جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیے کہ سوال یہ ہے کیا سپریم کورٹ امور میں مداخلت کا ایک نیا دروازہ کھولا جا رہا ہے؟، آئین نے بتا دیا ہوا ہے آپ کیا کر سکتے ہیں کیا نہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کوئی مریض کہیں مر رہا ہو اورمیڈیکل کی سمجھ رکھنے والا اسے مرنے دے کہ وہ ڈاکٹرنہیں ہے؟، پارلیمنٹ نے اچھی نیت سے قانون سازی کی۔ سماعت کے دوران جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ ہمیں بھی سوال کرنے کی اجازت دی جائے، انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا اس قانون کو تسلیم کرنے سے ہم نیا راستہ نہیں کھول دیں گے؟،جس پر عابد زبیری نے جواب دیا کہ جی بالکل کل کو ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ نہیں، کل کو کیا ہو گا اس کی بات میں نہیں کرنے دوں گا، ہمارے سامنے ایک مخصوص کیس ہے اس کی بات کریں۔ جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ کیلئے دروازہ کھول دیا تو وہ سپریم کورٹ کے ہر معاملے میں مداخلت کرے گی، ایک بار دروازہ کھل گیا تو اس کا کوئی سِرا نہیں ہو گا، قانون سازی اچھی یا بری بھی ہو سکتی ہے ہمیں اختیار کو دیکھنا ہو گا ، یہ نہیں ہو سکتا کہ اختیار سے باہر قانون سازی اچھی ہے تو ٹھیک ہے، آئین اس طرح سے نہیں چل سکتا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ کو تو کہتے ہیں نمبر گیم پوری ہونی چاہیے، فرد واحد آ کر آئینی ترمیم کرے تو وہ ٹھیک ہے، پارلیمنٹ کچھ اچھا کرنا چاہتی ہے تواس کو کچلنا کیوں چاہتے ہیں؟، ہم بھی مانتے ہیں کہ صوبائی اسمبلیوں کو ایسی قانون سازی کا اختیارنہیں۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی