سینٹ اجلاس میں سینیٹرز کی جانب سے ملٹری کورٹس کے حق میں قرارداد کی منظوری پر احتجاج کیا گیا' چیئرمین سینٹ نے ایوان میں کسی ممبر کو بات کرنے کی اجازت نہیں دی جس کے باعث ایوان میں ماحول کشیدہ ہوگیا' بعد ازاں چیئرمین سینٹ نے اجلاس ملتوی کردیا۔تفصیلات کے مطابق جمعہ کو سینیٹ سے ملٹری کورٹس کے حق میں منظور قرارداد لے خلاف دوسرے روز بھی احتجاج کے باعث اجلاس ملتوی کر دیا گیا۔ سینٹرز نے ایوان میں ملٹری کورٹس نامنظور کے نعرے لگائے ۔ ایوان میں ملٹری کورٹس کی منظوری پر شدید احتجاج کیا گیا سینیٹرز نے اپنی اپنی نشستوں پر احتجاج کیا کہ جو طریقہ قرارداد کی منظوری کیلئے اختیار کیا گیا ہے وہ غلط ہے۔ یہ قرارداد ایوان سے منظور نہیں ہونی چاہئے۔ سینیٹ اجلاس شروع ہوا تو سینٹرز نے ملٹری کورٹس کے حق میں منظور ہونے والی قرارداد کے خلاف نشست پر کھڑے ہو کر احتجاج شروع کر دیا۔ سینیٹر کامران مرتضی نے کہا کہ اس دن ہم نے اتنا برا کام کیا ہے کہ تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ یہ کن لوگوں کے کہنے پر کام ہواہم اس پر احتجاج کرتے ہیں۔ سینیٹر سعدیہ عباسی نے کہا کہ ہم جب تک سینیٹ سے منظور قرارداد کے بارے میں بات نہیں کر لیتے ہم ایوان نہیں چلنے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ایوان بالا میں اس پر بحث کرائی جائے۔ زرقہ سہروردی نے کہا کہ جو قرارداد پاس ہوئی اس پر بات کرنے دیں۔ چیئرمین سینیٹ نے کسی بھی سینیٹر کو بات کرنے کی اجازت نہ دیتے ہوئے کہا کہ ابھی وقفہ سوالات ہو رہا ہے۔ ایوان کی عزت کریںنشست پر بیٹھیں۔ ایوان میں سینٹرز نے شدید احتجاج جاری رکھا۔ جس پر چیئرمین سینیٹ نے اجلاس پیر ساڑھے تین بجے تک ملتوی کر دیا۔ اجلاس ملتوی ہونے پر سینیٹرز نے ملٹری کورٹ نہ منظور کے ایوان میں نعرے لگاے۔ سینیٹر بہرمند خان تنگی نے ملٹری کورٹس منظور کے نعرے لگائے۔
وقفہ سوالات میں پاکستان ریلوے کے ایم ایل ون منصوبے کی تفصیلات سینٹ میں پیش کی گئیں۔ تحریری جواب میں بتایا گیا کہ منصوبے کی لاگت میں کمی کے لیے ڈیزائن میں کچھ تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ ڈیزائن میں تبدیلی کے دوران معیار اور سیفٹی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا گیا۔ منصوبے کی لاگت میں کمی کے لیے ڈیزائن کی ایڈجسٹمنٹ کا فیصلہ جون 2023 میں کیا گیا۔ منصوبے کے پہلے مرحلے کے آغاز کے لیے چین کی نیشنل ریلوے ایڈمنسٹریشن سے اجازت کی درخواست کر رکھی ہے۔ این ار اے سے پہلے مرحلے کے لیے بولی کے عمل کے آغاز کی اجازت طلب کی ہے۔ایم ایل ون منصوبہ 9 ارب 85 کروڑ ڈالر کی لاگت سے نو سال میں مکمل ہوگا۔منصوبے کو تین مراحل میں مکمل کیا جائے گا۔ منصوبے کا تاحال باضابطہ آغاز نہیں ہوا۔ آغاز سے قبل اب تک منصوبے پر 11 ارب روپے سے زائد خرچ ہو چکے ہیں۔منصوبے کے ابتدائی ڈیزائن پر 10 ارب 64 کروڑ جبکہ فیزیبیلٹی سٹڈی پر 39 کروڑ روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ ملک بھر میں ریلوے اراضی پر غیر قانونی قبضے کی تفصیلات سینٹ میں پیش کی گئیں۔ بتایا گیا کہ ملک بھر میں ریلوے کی 13 ہزار 974 ایکڑ اراضی پر غیر قانونی قبضہ ہے۔ ریلوے کی 5512 ایکڑ زرعی، 3309 ایکڑ رہائشی، 769 ایکڑ کمرشل اراضی پر غیر قانونی قبضہ ہے۔سندھ میں 5ہزار 948، پنجاب 5809، کے پی کے 1181 اور بلوچستان میں 1034 ایکڑ اراضی پر غیر قانونی قبضہ ہے۔اراضی واگزار کروانے کے لیے تمام ڈویژنل سپریٹینڈنٹس کو احکامات جاری کر دیے گئے ہیں۔ نگران وزیر اطلاعات مرتضی سولنگی کا نے سینیٹ میں تحریری جواب میں بتایا کہ پاکستان انفارمیشن کمیشن کو نومبر 2018 میں اپنے قیام سے ابتک 3462 اپیلیں موصول ہو چکی ہیں۔ان میں سے 1478 اپیلوں پر کاروائی جاری ہیں جبکہ 1984 نمٹا دیا گیا۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی