تحریک انصاف نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف کیس میں تحریری معروضات سپریم کورٹ میں جمع کرادیں۔ استدعا کی کہ تحریری جواب کو کیس ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔ موقف اختیار کیا ہے کہ قانون عدلیہ کی آزادی کیخلاف ہے۔ پی ڈی ایم حکومت نے عدالت عظمی کے متوازی نظام قائم کرنے کی کوشش کی۔ آئین میں سپریم کورٹ اور چیف جسٹس کے اختیارات واضح ہیں۔ تحریری معروضات میں تحریک انصاف کی جانب سے مزید کہا گیا ہے کہ بنیادی حقوق اور عدلیہ کی آزادی کیخلاف قانون سازی نہیں رہ سکتی، سپریم کورٹ رولز 1980 کی موجودگی میں قانون نہیں بن سکتا۔ اس سے قبل وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کے حوالے سے عدالت عظمی میں اپنا جواب جمع کرادیا ہے، جس میں موقف اپنایا گیا ہے کہ اگر یہ قانون برقرار رہا تو قانون کے نفاذ سے قبل تشکیل کردہ بینچوں کے ذریعے سنائے گئے فیصلوں کو تحفظ مل جائے گا۔ وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمن کی جانب سے دائر کردہ جواب میں کہا گیا کہ اگر بینچ اب بھی مقدمات کی سماعت کر رہے ہیں تو ایسے بینچوں کی سینئر ترین 3 ججوں پر مشتمل کمیٹی کے ذریعے دوبارہ تشکیل ہونی چاہیے۔ یاد رہے کہ سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران 18 ستمبر کو فل کورٹ کی طرف سے سوال اٹھایا گیا تھا کہ کیا آئینی ترمیم کے برخلاف آرٹیکل 184(3) سے پیدا ہونے والے فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق عام قانون سازی کے ذریعے دیا جا سکتا ہے، جس کے جواب میں حکومت نے استدلال کیا ہے کہ اس شق کے تحت عدالت عظمی کا اصل دائرہ اختیار اپنی طرز میں فطری ہوتا ہے اور اسے فوجداری اور دیوانی پہلوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی